آزاد سٹیٹ بینک مگر کس قیمت پر؟

یکم جولائی 1948ء کو پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے کرنسی نوٹوں کے اجرا اور ملک کے مالیاتی استحکام کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا۔ کرنسی اور قرضوں کے لین دین کے ضابطے وضع کرنا بھی اس ادارے کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔ 1956ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ جاری کیا گیا جس کے مطابق اسٹیٹ بینک کو ملک کے مفاد میں پیداواری وسائل کے استفادے سے شرح نمو کی دیکھ بھال کے لئے قرضوں کے لین دین اور مالیاتی امور کی ضابطہ بندی کا ذمہ دار بنایا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں عالمی سطح پر نیو لبرل ماہرین اقتصادیات اور پالیسی سازوں نے معیشت میں ریاستی کردار پر ازسر نو غور شروع کیا۔ متعدد ممالک کے سٹیٹ بینکوں کی نجکاری اسی دور میں شروع ہوئی تاہم امریکہ، جرمنی اور چین جیسے بڑے ممالک نے اپنی کرنسیوں اور معیشت کے استحکام کے لئے اپنے اپنے سٹیٹ بینک کا فیصلہ کن کردار برقرار رکھا۔1956ء کے بعد سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی یہ چار بنیادی ذمے داریاں ادا کررہا ہے۔
1۔۔ مالیاتی پالیسی کی تشکیل اور اس کا نفاذ 2۔۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی ضابطہ بندی اور نگرانی
3۔۔ غیر ملکی زرمبادلہ کا انتظام 4۔۔ ادائیگیوں اور کھاتوں کے امور نمٹانا۔
10مار چ کو وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی جانب سے 6ارب ڈالر کے مالیاتی پروگرام کی 30شرائط میں شامل ایک کو پور ا کرنے کے لئے مناسب غور و فکر کے بغیر سٹیٹ بینک کے لیے حتمی اختیارات کی منظوری دیدی۔ اس حوالے سے منظور ہونے والی دستاویزانہی تجاویز پر مشتمل ہے جو گزشتہ برس سٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کو ارسال کی تھیں اور جس میں تجویز کردہ بہت سی تبدیلیوں کو توثیق نہیں کی گئی تھی۔ گزشتہ برس اپریل میں کابینہ کی کمیٹی برائے امور قانون سازی (سی سی ایل سی) نے سٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث اس کی توثیق نہیں کی تھی۔ اس بار وزارت خزانہ نے معاملے کی ہنگامی نوعیت کو بنیاد بنا کر یہ دستاویز سی سی ایل سی کو بائی پاس کرکے براہ راست وفاقی کابینہ کو بھجوادی ہے۔ پہلے سے موجود قوانین میں سٹیٹ بینک کو حاصل اختیارات میں توسیع کی گئی جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ مالیات اور زرمبادلہ سے متعلق فیصلہ سازی کے ساتھ اسے افراط زر کنٹرول کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ا س میں قیمتوں کا تعین شامل نہیں جس کی وجہ سے معاشی استحکام سٹیٹ بینک کی پالیسی کے ثانوی مقاصد شامل ہوگیا۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کو اسٹیٹ بینک کے ذیلی مقاصد میں شامل کردیا گیا ہے جس کے بعد یہ ادارہ اب ملک کے معاشی نمو کے لیے ذمہ دار نہیں رہا۔ حالیہ قانون کی منظوری کے بعد حکومت یا حکومت کے زیر ملکیت اداروں یا کسی بھی سرکاری ادارے کو براہ راست قرض یا ضمانت فراہم کرنے کا پا بند نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت سرکاری ملازمین کی تنخوائیں اور پنشن کی ادائیگی کے لیے سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ ان تبدیلیوں کے بعد عملی طور پر وزارت خزانہ کے بجائے سٹیٹ بینک حکومت کی معاشی فیصلہ سازی کرے گا اور اس حوالے سے وزیر اعظم اور کابینہ کو بھی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز میں سیکرٹری خزانہ کو نکال کر اس ادارے پر حکومت کا آخری اختیار بھی ختم کردیا گیا۔ جرمنی میں وفاقی اور سٹیٹ بینک آج بھی ریاست و حکومتی بینک کے طور پر کام کرتے ہیں ہمارے ہا ں ان تبدیلیوں کے بعد اب گورنرزسٹیٹ بینک کی حیثیت نوآباداتی دور میں بھی حکمرانی کرنے والے وائسرائے کی جیسی ہوجائے گی جواب آئی ایم ایف کا نمائندہ ہوگا۔ گورنر اور نائب گورنر کی مراعات، ملازمت سے متعلق قواعد و ضوابط کا فیصلہ سٹیٹ بینک کا بورڈ آف گورنرز طے کرے گا۔ سٹیٹ بینک اب چوں کہ اپنی تنخواہوں اور سفر سمیت دیگر اخراجات کے لیے بجٹ بنانے میں خود مختار ہوگا اور شخصیات کی رحجانات کے مطابق ان کا تعین ہوگا تو اس کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔
سٹیٹ بینک کے انتظامی امور سے متعلق جوابدہی نہ رکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ سیکرٹری خزانہ کامران علی افضل نے شق 39کا حوالہ دے کر اس خامی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم بل کی یہ شق احتساب کی ضمانت نہیں دیتی۔ اس شق کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک کے مقاصد میں کامیابی، مالیاتی پالیسی کے نفاذ، معاشی صورت حال اور اقتصادی نظام سے متعلق سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ ضرور پڑنے پر کسی بھی سنئیر افسر کو اضافی وقت کے لئے طلب کرسکتی ہے۔ جوابدہی کے نام پر یہ مذاق ہے۔ پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کو بمشکل جوابدہی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ قومی احتساب بیورو ایف آئی اے گورنر سٹیٹ بینک سمیت سٹیٹ بینک میں کسی کے خلاف تحقیقات کا اختیار نہ رکھتے ہوں۔ بعض موجودہ اور حتی کہ سابقہ حکام کو جن میں سے بعد بڑے جرائم کے مرتکب ہیں بھی استشنی دے دیا گیا ہے۔ اس بل کے مطابق بینک بورڈ اور ڈائریکٹرز کے ارکان، گورنر، نائب گورنر کے خلاف ہرجانے کے لئے کوئی دعویٰ مقدمہ یا کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں کی جاسکے گی۔ لندن میں خود ساختہ جلاوطن اسحاق ڈار کے مطابق یہ بل سٹیٹ بینک کو معاشی اعتبار سے ایسی بلا بنادے گا جو قومی خود مختاری کو نگل جائے گا اور ملک کو عالمی سطح پرمالیاتی اداروں کا غلام بنادے گا۔ سٹیٹ بینک کو ایک خود مختارادارہ ہونا چاہیے لیکن اسے احتساب سے استشنیٰ دینا جب کہ ملک کے وزیراعظم کا بھی احتساب ہوسکتا ہو اس ادارے کو حکومت اور وزیراعظم سے بالاتر بنانے کے مترادف ہے۔ احتساب کا راستہ روکنا آئی ایم ایف کو بھی مطلوب نہیں ہوگا۔ اس کے نتیجے میں کرپشن کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے مسائل پاکستان کے ایف ٹی ایف کے گرے لسٹ میں ہونے کی بنیادی وجود ہیں۔ ایف ٹی ایف کی40شرائط پوری کرنے کی راہ میں حائل روکاوٹیں دور کرنے کے لئے سٹیٹ بینک کا کردار بہت اہم ہے۔ سٹیٹ بینک کو احتساب کے دائرے سے نکال دینے سے ہمیں گرے لسٹ سے نکلنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
حالیہ قانون سے کئی سوالات اور اندیشے جنم لیتے ہیں کہیں رضاباقر کے خلاف عوامی ردعمل پیدا کرنے کے لئے اس بل کی تشہیر تو نہیں کی گئی، کیوں کہ پاکستان میں میرٹ ہی سب سے بڑی نااہلی تصور ہوتا ہے؟
رضاباقر مثالی قابلیت اور دیانت کے حامل گورنر ہیں تاہم اس وقت کیا ہوگا جب کوئی وزیرخزانہ اس منصب پر اپنے من پسند شخص کو لانے میں کامیاب ہوجائے گا؟
او ر اس کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوگا اس قانون پر مزید بحث اور بلند خیالی کی ضرورت ہے وگرنہ ا س پر آنیوالا ردعمل پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا ہمیں آزاد سٹیٹ بینک کی ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ریاست سے بالا تر بنادیاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں