ارتھ شاستر کتاب ہندوستانی ارسطو چانکیہ کی صدیوں پرانی تصنیف میں کیا ہے ؟

یہ تقریباًدوہزار سال پہلے کی بات ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں ابھی چار یا ساڑھے تین سوسال باقی تھے کہ ہندوستان کے عظیم تاریخی شہر ٹیکسلہ میں ایک بدصورت برہمن بچہ پیدا ہوا جو بعد میں ٹیکسلہ یونیورسٹی کا مایہ ناز استاد بنا۔ اسے تحصیل علوم وفنون کی گھٹی ملی تھی۔ وہ اپنی غربت اور بدصورتی سے دھیان ہٹاکر کتابوں اور استادوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ علم و حکمت اور اپنے وقت کے جملہ فنون پر دسترس حاصل کرکے وہ تاریخ کی عظیم شخصیت اور فن حکمرانی کا سب سے اعلیٰ معلم بن گیا۔ اس کی شخصیت کے بارے میں مکمل تفصیلات تاریخ میں محفوظ نہیں کیں لیکن اس کی تعلیمات سے سبھی آشنا ہیں۔ شاہد ہی کوئی علمی شعبہ ایسا ہو جسے اس نے اپنی فکر اور تحقیقی سے مبرا رکھا ہو۔ ماضی کے طلسمی ہندوستان کا یہ فرزند کوٹیلہ چانکیہ ہے جو اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب۔”ارتھ شاستر“ کے حوالہ سے کسی مزید تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
ارتھ شاستر نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران جو اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک بھی واضح رہیں گے۔ سکندر کی ہندوستان سے واپسی کے بعد نندا خاندان کے حکمرانوں کی چند گپت موریہ فرما نظر آتی ہے۔ یادرہے کہ نندا خاندان کے حکمرانوں کو سکندر بھی واضح شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ اس ایک مثال ہی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کتاب کے مصنف کی سیاسی اور جنگی حکمت عملی کس قدر موثر اور قابل عمل تھی۔
کوٹیلہ نے اس آفاق تصنیف میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔ علوم و فنون، زراعت، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسوم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہمات، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہروہ موضوع کوتلیہ کی فکر کے وسیع دامن میں سماگیا ہے جو آپ سوچ سکتے ہیں۔
علم سیات کے پنڈت کہیں کوتلیہ کو اس کی متنوع علمی دستگاہ کی وجہ سے ہندوستان کا ارسطو کہتے ہیں اور کہیں ایک نئے واضح تر سیاسی نظام کا خالق ہونے کے باعث اس کا موازنہ میکیاولی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک توکوتلیہ کا انداز فکر ارسطو کی نسبت زیادہ جزئیاتی اور مدلل ہے اور دوسرے میکیاولی کے برعکس وہ سیاست کی بنیاد سیاست کی بجائے تمدن اور معاشرت کو متعین کرکے ان دونوں ہستیوں سے منفرد اور نمایاں مقام حاصل کرچکا ہے۔
اکثر محقق اس امر پر متفق ہیں کہ ارتھ شاستر 311سے300ق۔م کے دوران تصنیف ہوئی۔ اس کتاب کا اصل سنسکرت متن 1904ء میں دریافت کیا گیا۔ 1905ء میں اسے پہلی مرتبہ کتابی شکل میں منظم کیا گیا۔ 1909ء اور پھر اسکے بعد حکومت ہند نے جناب شام شاستری کی مرتب کردہ ارتھ شاستر کو سنسکرت متن اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ بارہا شائع کیا۔ اس کے نتیجہ میں بیسویں صدی کی ہندو سیاست کو ایک بنیادی فکری سہارا میسر آیا۔
خصوصاً 1947ء کے بعد سے اب تک کے ہندو حکمرانوں کے اقدامات اور حکمت عملی کو کوٹیلہ ہی کی سیاسی فکر کا پرتو ہے۔ کافی عرصہ سے پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اور نگارشات نے ارتھ شاستر کو شائع کرکے اس ضرورت کو بہت احسن انداز سے پورا کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں