امریکہ میں تارکین وطن کے بچے کس حال میں ہیں؟

امریکہ میں حراستی کیمپوں کا ملک بھر میں ایک بہت ہی وسیع سطح پر پھیلا ہوا نظام ہے، جس میں بیس ہزار کے قریب تارکین وطن کے بچوں کو رکھا گیا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ایسے حراستی کیمپوں کے عملے اور ان میں رکھے گئے بچوں نے انٹرویوز میں ان کیمپوں میں سردی، بیماریوں، غفلت، سروں میں جوئیں، ماحول میں گندگی کے الزامات بیان کیے ہیں۔ یہ ریو گرانڈ میں نصف شب کا وقت تھا ہیبت ناک دریا جو امریکی ریاست ٹیکساس اور ہمسائیہ ملک میکسیکو کے درمیان ایک سرحد ہے اس وقت میکسیکو کی سرزمین پر روشنیاں جلنے بھجنے لگیں۔ اندھیرے میں لوگوں کی آوازیں بھی سنی جاسکتی تھیں۔ پھر چند سائے نمودار ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے بیڑوں کی صورت اختیار کرلی، اور پھر انہوں نے دریا عبور کرنا شروع کردیا جب یہ بیڑے دریا عبور کرکے امریکہ کی حد میں داخل ہوئے تو ان پر سوار تارکین وطن کے چہرے نظر آنا شروع ہوگئے۔ ان میں آدھے سے زیادہ بچے تھے۔

صرف مارچ اور اپریل کے مہینوں میں 36ہزار سے زاہد بچوں نے اپنے کسی بڑے کے بغیر یہ سرحد عبور کی تھی۔ حالیہ برسوں میں اتنی زیادہ تعداد ایک ریکارڈ تھی۔ ان میں سے کئی بچے ایسے تھے جن کے والدین میں سے کوئی ایک پہلے ہی سے امریکہ میں موجود تھا اور یہ ان کے پاس پہنچنے کی امید رکھتے تھے۔ امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ان میں 80فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار امریکہ میں موجود ہوتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے ایسے بچوں کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے جو امریکہ میں پناہ کے لیے آنا چاہتے ہیں، یہ ایک لحاظ سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی نسبت سے ایک نرم پالیسی ہے جس میں کووڈ 19کی وجہ سے ایسے پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ ان تھکے ماندے بچوں نے دریا عبور کرنے کے بعد کنارے تک پہنچنے کی کوشش کی۔ دو رشتہ کے بھائیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ ہوا تھا۔ایک او ر نوجوان، جورڈی نے کہا کہ وہ گوئیٹے مالا کے بدمعاشوں کے گینگز کے تشدد کے خوف سے ڈر کر بھاگا تھا۔ لیکن اس رات وہ اس بات سے خوف ذدہ تھا کہ اس رات امریکی حراستی کیمپ میں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔

اس نے بتایا کہ اس نے ان کیمپوں کے بارے میں کئی کہانیاں سن رکھی تھی۔ اس نے کہا وہ ہمیں برف خانے میں رکھیں گے اور ہم سے تفتیش کریں گے۔ یہ مبینہ بر ف خانے جو تارکین وطن میں بہت بدنام تھے اصل میں امریکی بارڈر پولیس کے یہ بہت ہی ٹھنڈے کمرے یا کیوبیکلرز تارکین وطن کے معاملات کو نمٹانے کے لیے ہوتے ہیں۔ جورڈی کا کہنا ہے کہ وہ بدمعاشوں کے گینگز سے بھاگنا چاہتا تھا۔جورڈی کو بتایا گیا کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ لائن میں شامل ہوجائے۔ امریکہ کے کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن سی بی بی (کیگارڈز بچوں سے ان کے جوتے اور بیلٹیس لے رہے تھے)
یہ عمل عام طور پر قیدیوں کے لیے مخصوص طریقہ تھا تاکہ وہ کیں اپنی جانیں نہ لے لیں ا س کے بعد رات کے وقت جورڈی اور دوسرے بچوں کو بس میں لے جایا گیا تاکہ دیگر تارکین وطن بچوں کو حراست میں لیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں