ایسی ایجادات جن سے دنیا میں انقلاب آیا۔

اب رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیل نے جب غزہ پر چڑھائی کی تو اس کے نتیجے میں 215فلسطینی شہید ہوئے جن میں غالباً58بچے بھی شامل ہیں۔ اس ہولناک المیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل گزشتہ دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی ہے اسی بنا پر اسرائیل نے طاقت حاصل کی ہے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جو ہر سال اپنی آمدن کا 4اشاریہ 5فیصدبجٹ سائنس و ٹیکنالوجی پہ خرچ کرتا ہے۔ اسرائیل کی ہر دس ہزار آباد میں 145کے قریب سائنس دان اور ٹیکنیشن ہیں۔ یہ شرح بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے جبکہ امریکہ میں یہ شرح 85فی دس ہزار اور جاپان میں 83فی دس ہزار ہے۔ اسرائیل کی دس لاکھ آبادی میں 8500سائنس دان اور محقق ہیں۔ اسی بدولت اسرائیل نے جدید ترین اسلحہ بنایا اور دنیا کو اپنی دھونس دکھائی۔
اب ذرا اسلامی دنیا کی حالت پر نظر دوڑائیں تو اس وقت اسلامی دنیا جو کو لگ بھگ آبادی 2ارب ہوچکی ہے اتنی بڑی آبادی کے باوجود شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے پیچھے ہیں۔ اسرائیل کی طرح اگر یہاں بھی حساب لگایا جائے تو ہر دس ہزار آباد ی میں بہت ہی کم تعداد سائنس دانوں کی ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں نہ تو کوئی سائنسی نظریہ جنم لیتا ہے اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ ایجادات سامنے آتی ہیں۔ اگر کبھی کچھ کر بھی لیا تو کسی ایجاد کی نقل کرلی مگر اس کے متبادل کبھی تیار نہیں ہوپائی۔ اگر ہم عسکری سائنس و ٹیکنالوجی میں دیکھیں تو اس وقت صرف تین اسلامی ملک پاکستان، ترکی اور ایران ہیں جن کی عسکری پاور عالمی طاقتوں کے برابر ہے مگر اس کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک بالکل ہی صفر ہیں۔
مغرب کی بات نہ کریں اب تو چین، جاپان، جنوبی کوریا یہاں تک کہ ہمارے پڑوس میں بھارت بھی اب سائنس و ٹیکنالوجی میں کافی آگے نکل چکا ہے۔ یعنی اس وقت جتنی میں بھی حیرت انگیز ایجادات سامنے آرہی ہیں یہ سب غیر مسلم ممالک ہی کررہے ہیں اسلامی دنیا کا کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں جو ان کی صف میں کھڑا نظر آئے۔ اسلامی دنیا کا سب سے بڑ امسلہ یہ ہے کہ یہاں کے حکمران اپنی ساری توانائیاں اپنے اقتدار اور آسائشوں کو بچانے کے لیے صرف کرتے ہیں۔ آئیے آپ کو چند ایجادات بتاتے ہیں جنہوں نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔

مشین کی حکومت:
پانچ ہزار سال قبل جب انسان نے پہیہ اور لیو ر کی ایجاد کی تو اس وقت انسان کو احساس ہوا کہ انسان اپنے روزمرہ کے کام سرانجام دینے کے لیئے مشین سے کام لے سکتا ہے۔ آج یہ نوبت آچکی ہے کہ سافٹ وئیر، مصنوعی ذہانت اور ربورٹ تیار ہوچکے ہیں اور یہ مشینیں ایسے ایسے کام کررہی ہیں جو ماضی میں انسان خود کیا کرتا تھا۔ اس سارے منظر نامے کے پیش نظر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مشینیں مستقبل میں انسانوں کو بے روزگار کردیں گی جب کہ خود کاری کے حامی دانشوروں کا کہنا ہے کہ مشینوں کا استعمال بڑھنے سے لوگ بے روزگار نہیں ہوں گے بلکہ روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے مشین کا ڈرامائی ارتقاء دیکھتے ہوئے مستقبل میں دو منظر نامے جنم لے رہے ہیں پہلا یہ کہ بیروزگاری اور بڑھتی آبادی کیوجہ سے پوری دنیا میں مسائل پید اہوں گے اگر حکومتوں بروقت اقدامات نہ کیے تو لوگ بغاوت پہ اتر آئیں گے ہر ملک میں مظاہرے ہوں گے اور اٹھاریں صدی کے برطانیہ کی طرح بیروزگار لوگ کارخانوں پردھاوا بول کر ساری مشینری ہی تباہ کردیں۔
دوسرا منظر نامہ یہ کہتا ہے معاشرے میں مشینیں کام کریں گی اور انسانون کو آزدی مل جائے گی وہ اپنا وقت مند پسند سرگرمیوں میں گذار سکیں گے۔ گویا انسانوں کو فرصت کے لمحات میسر ہوں گے جس سے وہ اپنی زندگی آرام و سکون سے گزار سکیں گے اور انسانوں کے مابین یہ جو مادیت کی دوڑ لگ چکی ہے یہ دوڑ رک جائے گی اور سکون ہوجائے گا۔
1787ء کی بات ہے جب برطانیہ میں ایک برطانوی آرک رائٹ جنہوں نے اپنی ذہانت سے مشینی کھڈی ایجاد کرڈالی اس ایجاد ک بعد کپڑ ا بننے والی فیکٹریوں میں سارا کام مشینی ہونے لگا اور جولاہوں کی جگہ کھڈیا کام کرنے لگی جس سے کافی جولائے بیروزگار ہوگئے جس کے نتیجے میں جولاو نے اس کھڈی کو پھیلنے سے روکا اور اس کے خلاف ایک پرتشدد تنظیم لدتی بنا ڈالی۔
1811اور 1816میں لدتی تنطیم کے کارکنوں نے کئی کارخانوں پر دھاوا بولا اور ان کے مالکان سے مقابلے کیے آخر میں برطانوی فو ج نے اسلحے کے ذور پر یہ بغاوت کچل ڈالی تاریخ انسانیت میں مشین کے خلاف انسان کی یہ پہلی بغاوت تھی۔

مصنوعی ذہانت:
عام طور پر مصنوعی ذہانت کا مطلب ہے کہ وہ سافٹ وئیر یا کمپیوٹر پروگرام جن کی مدد سے کوئی مشین یا روبورٹ کام کرسکے۔ مصنوعی ذہانت کی دو بڑی اقسام ہیں مشین لرنگ اور ڈیپ لرننگ۔ ان دونوں اقسام کے سافٹ وئیر مخصوص کمپوتری ہدایات رکھتے ہیں۔جنہیں ”الخوارزم“ کا نام دیا جاچکا ہے۔ مشینلرننگ والے سافٹ وئیر فراہم کیے گئے ڈیٹا کو پروسیس کرتے،اس سے ہدایات لیتے ار یو ں اپنی زمے داری انجام دیتے ہیں۔ ان سافٹ وئیر کو جو بھی کام تفویض کیا جاتا ہے وہ بس اسی کوہی انجام دیتے ہیں یہاں ایک مثال دیتے ہیں آپ کو کہ ایک روبوٹ میں یہ سافٹ وئیر ڈالا جاتا ہے کہ وہ صرف کمرے کی صفائی کرے گا لہذا وہ بس کمرے کی صفائی ہی کرسکے گا اس کے علاوہ اس میں کوئی بھی اہلیت نہیں ہوگی۔
ڈیپ لرننگ والے سافٹ وئیر زیادہ پیچیدہ الخوارزمی والی ہدایات رکھتے ہیں۔ ان کی شکل و صورت انسانی دماغ میں پھیلی نسوں کے جال جیسی ہے۔ اسی لیے ان کو مصنوعی عصبی نیٹ ورک بھی کہتے ہیں۔ یہ بہت ہی ترقی یافتہ اور نفیس ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ڈیٹا کو پروسیس کرکے اس سے نئے کام سیکھ سکتے ہیں۔ یعنی یہ سافٹ وئیر کسی حد تک خود مختیار اور آزاد بھی ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پروان چڑھتا بچہ سب کچھ سیکھتا ہے یہ اسی طرح نئے ڈیٹا سے سیکھتے ہیں 2000کے بعد ماہرین نے ڈیپ لرننگ سافٹ وئیر بنانے کی کوشش کی جس کی کامیابی 2014میں جاکر ملی اور سافٹ وئیر لرننگ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

کمپیوٹر کا دماغ :
پروسیسر کسی بھی کمپیوٹر کا دماغ ہوتا ہے۔ یہ سی پی یو بھی کہلاتا ہے۔ یہی آلہ سافٹ وئیر کو عملی شکل دیتا اور کمپیوٹر میں پروسیسنگ کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ ماہرین اس آلے کو بھی بہترین بنانے کی کوشش میں ہیں 1978تک امریکہ نے جتنے بھی پروسیس بنائے وہ سب ”آر آئی ایس سی“ نامی ہدایت پر مبنی تھے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ فی الوقت اے آر ایم اور آر آئی ایس سی وی پروسیسرروں کا استعمال کم ہے مگر مستقبل میں انہی کا چلن ہوگا۔ ایک رپورٹ کی رو سے 2030میں دنیا کے ستر فیصد کمپیوٹروں میں یہی دو پروسیسرر نصب ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں پروسیسر لگانے کی متمنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں