بارٹر سسٹم سے ڈیجیٹل کرنسی تک

زمانہ قدیم میں جب کرنسی کا تصور تک نہیں تھا، تب لین دین کے لئے اشیاء کے بدلے اشیاء کا نظام رائج تھا، اس نظام کو ’’بارٹر سسٹم‘‘ کہتے ہیں۔
جیسا کہ چاول کے بدلے کپاس یا گندم کے بدلے دالیں۔آٹھویں صدی عیسوی سے قبل جاپان میں چاول اور دیگر اجناس، تیر کی نوک اور سونے کے چورے کو رقم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

رفتہ رفتہ بھاری بھر کم اناج ، دھاتی اشیاء اور دیگر بھاری اور زیادہ حجم والی اشیاء ترجیحات سے نکلتی چلی گئیں اور مختلف دھاتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رواج پاتے چلے گئے ۔ لوہے اور تانبے کے علاوہ دیگر دھاتیں بھی بارٹر سسٹم میں استعمال ہوتی رہیں ، کچھ ہی عرصہ بعد لوگ دھاتوں کے وزن سے بھی اکتا گئے اور یوں سونے اور چاندی کے ہلکے ٹکڑوں نے جگہ بنالی ۔دراصل یہی کرنسی کی ابتداء تھی جو سکوں کی صورت میں رواج پا چکی تھی۔

سب سے پہلے 600قبل مسیح میں ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک کاروباری شہر لیڈیا میں سونے اور چاندی کے ٹکڑوں پر مہر لگا کر سکے بنانے کا آغاز کیا گیاتھا اس سے تولنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور محض گن کر کام چلایا جانے لگا ۔ان سکوں پر کندہ مہر ہی اصلیت اور مالیت کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔

پہلے سکوں کی مالیت دھات کی قیمت کے برابر ہوا کرتی تھی یعنی جتنی مالیت کی دھات استعمال ہوئی ہوتی تھی اتنی مالیت سکوں پر کندہ ہوتی تھی۔لیکن رفتہ رفتہ سکے جاری کرنے والی حکومتیں دھات کی قیمت سے کئی گنا زیادہ مالیت سکوں پر لکھنے لگ گئیں۔اور آجکل تو سکوں پر لکھی مالیت استعمال شدہ دھات کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے بلکہ اکثر ملکوں کے سکوں کی مالیت دھات کی قیمت سے 20 سے 30 گنا زیادہ لکھی ہوتی ہے۔کیونکہ اگر سکوں میں استعمال شدہ دھات اس کی مالیت سے زیادہ ہو تو لوگ اسے پگھلا کر دوسری قسم کے استعمال میں لے آتے ہیں ۔

قدیم چین کے گول سکوں میں چوکور سوراخ ہوا کرتا تھا جس کو باآسانی دھاگے یا رسی میں پرویا جا سکتا تھا ۔ چین میں ان سکوں کو’’کیش‘‘کہا جاتاتھا۔اس دور میں امریکی ڈالرز اور برطانوی پائونڈز ،دونوں چاندی سے بنے ہوتے تھے ۔پہلا امریکی ڈالر1794ء میں بنایا گیا تھا جس میں 89.25 فیصد چاندی اور 10.75فیصد تانبا استعمال ہوا تھا جبکہ برطانوی پائونڈ میں ایک پاؤنڈ خالص چاندی استعمال ہوتی تھی۔

1947ء آزادی کے وقت پاکستانی کرنسی نہیں بنی تھی چنانچہ شروع میں برطانوی ہند کے روپے پر پاکستان کی مہر لگا کر کام چلایا گیا ۔1948ء میں پاکستان نے اپنے نوٹ چھاپے اور دھاتی سکے بھی بنائے۔اس وقت ایک روپیہ میں سولہ آنے اور ہر آنے میں چار پیسے اور ایک پیسے میں تین پائی ہوتی تھیں ۔

زمانہ قدیم میں جب کرنسی ابھی دھاتی سکوں کی شکل میں رائج تھی تو کاروبار کے سلسلے میں بسا اوقات لوگ کسی بااثریا مالدار یا کاروباری شخص کے پاس حفاظت کے لئے رکھوا چھوڑتے تھے جو انہیں اسکی مالیت کے برابر کاغذ کی ایک پرچی رسید کے طور پر دے دیا کرتا تھا ۔جنہیں وہ حسب ضرورت پرچی دکھا کر اپنی جمع رقم واپس بھی لے سکتا تھا اور اگر اس نے یہ رقم آگے کسی اور کو دینا ہوتی تو وہ اس کو یہی پرچی تھما دیتا ۔بسا اوقات یہ پرچی سال ہا سال ’’سرکولیشن ‘‘میں رہتی۔سب سے پہلے کاغذی پرچی کا یہ طریقہ اہل چین نے650 ء میں متعارف کرایا تھا جو رفتہ رفتہ دوسرے علاقوں تک پھیلتا چلا گیا۔ لوگوں کو لین دین کا یہ طریقہ بہت سہل لگا اور ایک عرصہ تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا جو دراصل ’’کاغذی کرنسی‘‘کی ابتدائی شکل تھی۔

لین دین کا یہ طریقہ آگے چل کر ریاستوں اور حکمرانوں کو بھی بھا گیا جنہوں نے کافی سوچ بچار کے بعدیکساں سائز کے کاغذ کے نوٹوں کا با قاعدہ اجرا ء کیا جن پر ریاست کی طرف سے یہ عبارت درج ہوتی کہ’’متعلقہ ریاست حامل ہذا کو مطلوبہ رقم طلب ادا کرنے کی پابند ہے ‘‘۔

چین کے بعد جاپان نے بھی اس طریقے سے متاثر ہو کر 14ویں صدی میں کاغذی کرنسی کو حکومتی سطح پر متعارف کرایا۔یورپ میں سویڈن پہلا ملک تھا جس نے رسیدوں کی بجائے کاغذی نوٹوں کو باقاعدہ قانونی شکل دے کر نوٹوں کو رواج دیا۔اس کے بعد برطانیہ نے 1695میں ہندوستان نے بنک آف کلکتہ کے ذریعے 5 جنوری 1825 میں باقاعدہ نوٹوں کا اجراء کیا۔جبکہ پاکستان نے یکم اکتوبر 1948 ء کو کرنسی نوٹ پہلی بار جاری کئے۔اور یوں انیسوی صدی کے اوائل تک کاغذی کرنسی پوری دنیا میں براہ راست سرکاری سرپرستی میں آ گئی۔

کرپٹو کرنسی ایک ایسی ڈیجیٹل کرنسی ہے جو حکومتوں اور بنکوں کے قواعد و ضوابط سے آزاد ہوتی ہے اور اسے خود ہی بنانا ہوتا ہے اور خود ہی انفرادی طور پر استعمال کرنا ہوتا ہے اسے جاپان نے سب سے پہلے 2009 ء روایتی کرنسی کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا تھا۔اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روپے پیسے کو سرکاری نگرانی سے آزاد رکھا جائے ۔کرپٹو کرنسی کو آپ ڈیجیٹل کرنسی کہیں یا کسی تجارتی لین دین کا ذریعہ ، بہر صورت یہ ایک فرضی چیز ہے جسے آپ محاورتاََ ہاتھی کے دانت کی طرح دکھانے کی چیز کہہ سکتے ہیں ۔

آجکل انٹر نیٹ پر ڈیجیٹل کرنسی کی کئی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔وہ یہ تشہیر بھی کر رہی ہیں کہ آنے والا ’’ پیپر فری کرنسی‘‘دور ہو گا یعنی کاغذ کے نوٹ ختم ہو جائیں گے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی لے لے گی۔یہ سننے میں بھی آیا ہے کہ دنیا کے کئی بڑے بڑے بینکوں نے اس کرنسی کو قبول بھی کر لیا ہے اور وہ رجسٹرڈ بھی ہو چکی ہیں۔ اور کئی ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے آن لائن شاپنگ شروع بھی ہو چکی ہے ۔

سب سے پہلے کمپنی رکنیت کے خواہشمندوں کو ممبر بننے کی دعوت دیتی ہے جنہیں عموماََ 100 یورو سے لیکر 28 ہزار یورو تک کا کوئی ایک پیکج لینا ہوتا ہے ۔ عموماََکمپنیاں ان پیکجز کو ایجوکیشن پیکج کا نام دیتی ہیں ۔اس پیکج کو حاصل کر لینے کے بعد کمپنی اس ممبر کو ٹوکن دیتی ہے ۔ان ٹوکنوں کی تعداد ہر پیکج کے حساب سے مختلف ہوتی ہے ۔ایک مخصوص عرصے ( عام طور پر 90دن)کے بعد کمپنی ان ٹوکنوں کی تعداد کو دوگنا کر دیتی ہے۔ دوگنے ٹوکن حاصل کرنے کے بعد ممبران کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان ٹوکنز کو ڈیجیٹل کوائن میں تبدیل کرا لیں ۔

جو متعلقہ کمپنی بغیر کسی چارجز کے کر دیتی ہے۔اب صارف کو یہ اختیار حاصل ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ یہ کوائن بیچ سکے ۔اس طرح صارف کو تقریباً دوگنا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ۔ اس وقت بے شمار کرپٹو کرنسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں چند ایک کمپنیوں کے نام یہ ہیں، بٹ کوائن (Bitcoin) ، ایتھیرئیم (Ethereum)، داش (Dash)، کلاسک (Classic) اور بٹ کوائن گولڈ (Bitcoin Gold)۔بہر حال اس جدید کرنسی کا مستقبل کیا ہو گا ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ترجمان کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے شکوک وشبہات پائے جا رہے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نہ تو ڈیجیٹل کرنسی پر کھل کر پابندی لگا رہی ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں