بجلی کی بچت کیسے ممکن ہے آج ہماری کتنی بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔؟

کچھ مادے ایسے ہیں جو بجلی کی متحرک کرنٹ کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں۔ ان کو کنڈکٹر کہا جاتا ہے۔ تانبہ، لوہا اور المونیم وغیرہ اسی قسم کے کنڈکٹر ہیں۔ چنانچہ بجلی کو پاور ہاؤس سے دوسرے مقامات پر بھیجنے کے لیے ان ہی مادوں کے تار بنائے جاتے ہیں۔ ان تاروں پر بجلی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جاتی ہے۔ اس روانگی کے دوران یہ مادے گرم ہوکر بجلی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تقریباً پچاس فیصد بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ یعنی پاو ر ہاؤس میں جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ عملاً اس کا صرف آدھا استعمال ہوتا ہے بقیہ آدھا حصہ غیر استعمال شدہ طور پر ضائع ہوجات ہے۔
1911ء میں ایک ڈچ سائنسدان ایچ کے اونز نے ایک تجربہ کے دوران پایا کہ بعض مادے ایسے ہیں جن میں یہ قدرتی صفت ہے کہ ایک خاص درجہ حرارت پر پہنچے کے بعد وہ مطلق صفر کی سطح پر آجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی قوت مدافعت مکمل طور پر ختم کرکے اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ بجلی کی روانی میں رکاوٹ ڈالے بغیر اس کی ترسیل کرسکیں۔ ایسے مادہ کو سپر کنڈکٹویٹی کا نام دیا گیا اور اس پر ریسرچ شروع کردی گئی۔ اب تقریباً 80برس بعد یہ تحقیق اپنی آخری منزل پرپہنچ گئی ہے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ سپر کنڈکٹر مادے کو استعمال کرکے بجلی کی ترسیل کی جائے اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ بجلی کی صد فی صد مقدارا استعمال ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بجلی پیدا کرنے کے خارکانوں میں مزید اضافہ کیے بغیر قابل استعمال بجلی کی مقدار استعمال میں دگنی ہوجائے گی۔
Elecrticity saved is electricity generated
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ بچت بھی ایک قسم کی آمدنی آ پ اگر اپنی آمدنی میں اضافہ نہ کرسکتے ہوں تو اپنے خرچ میں کمی کیجئے۔ اپنے خرچ میں کمی کرکے آپ اپنی آمدنی کو بڑھا سکتے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کا یہ ایک ایسا نسخہ جو ہر آدمی کے اختیار میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں