ترک اور اوغوز خان کون تھے ۔؟

ترک یافث کے ایک بیٹے کی اولاد میں سے ہیں جس کا نام ترک تھا۔ اور جس نے ایک خلیج کے کنارے جس کو چاروں طرف سے پہاڑ گھیرے ہوئے تھا اپنا دارلحکومت بنایا تھا۔ ترک کے چوتھے جانشین الیچ خان کے زمانہ حکومت میں ترکوں نے بت پرستی اختیار کرلی۔ ترک کے آٹھویں جانشین قرہ خان کی پیدائش کے وقت بہت سی تعجب خیز باتوں کا ظہور ہوا۔ قرہ خان کی عمر ابھی ایک ہی سال کی تھی کہ اس نے سلطنت کے بہت سے اکابر کے سامنے بآواز بلند یہ اعلان کردیا کہ اس کانام”اوغوذ خان“ ہے اور یہ کہ وہ اس وقت تک اپنی ماں کا دودھ نہیں پئے گا جب تک کہ اس کی ماں خدا کی وحدانیت تسلیم نہ کرلے۔ اوغوز خان کے باپ نے اپنے دیوتاؤں کا بدلہ لینا چاہا جن سے اوغوز کا جواب بڑا ہوگیا تھا سخت نفرت تھی اور اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ اس حکم کی بنا پر باپ بیٹے میں لڑائی چھڑ گئی اور اوغوذ خان کا باپ ایک تیر کے صدے سے ہلاک ہوگیا۔ اوغوز خان کو اس موقع پر اس کے دوستوں نے جو امداد دی تھی اس کے معاوضے میں اس نے ان کو الغیور (معاون) کا خطاب دیا۔
اوغوز خان کے چھ بیٹے تھے جن کے نام بالترتیب گون (دن) آی (مہینہ) ییلدیز (ستارہ) گوک (آسمان) طاق (پہاڑ) اور دگز (سمندر) اس نے یہ اندازہ لگانے کے لیے ان کا مستقبل کیسا ہے ان سب کو ایک دن شکار کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ ایک کمان اور تین تیر جو ان کو اوغوذ خان کی جانب سے ملے تھے لے کر واپس آئے۔ واپسی پر اوغوز خان نے تین بڑے بیٹوں کو کمان اور تین چھوٹے بیٹوں کو تیر دے دئیے۔ چھوٹے بیٹوں نے ایک تیر لے لیا لیکن بڑے بیٹوں نے کمان کے قبضے کا جھگڑا چکانے کی غرض سے کمان کے تین ٹکڑے کردئیے۔ اوغوز خان اپنے تین بڑے بیٹوں کو جنہیں کمان ملی تھی بوزوق (تباہ کار) اور چھوٹے بیٹوں کو جن کے حصے میں تیر آئے تھے اوچ اوق (تین تیر) کے نام سے پکارنے لگا۔ بوزوق فوج کے میمنے کو لے کر مغرب کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور اوچ اوق یسار پر قابض ہوکر مشرقی ترک بن گئے۔ اوغوز خان کے ہر ایک بیٹے کے چار چار بیٹے تھے جو آگے چل کر چوبیس ترکی قبائل کے سردار بنے۔
بحر خزر۔جبل ارال۔ التائی خطائی۔ اور ہمالیہ کے درمیان جو وسیع خطہ ارض ہے اور جس کے ایک حصے کو آج بھی ترکستان کہا جاتا ہے اس میں وہ تمام ممالک شامل ہیں جہاں تاتاری (منگول) آبا دتھے۔ یہی وہ گہوارہ اقوام ہے جہاں سے وہ تمام وحشی گروہ جنہوں نے ابتدائی صدیوں میں مغرب پرحملہ کیا تھا آئے تھے۔ ترک تارتاری منگول قدغزا اور قلموق بھی اسی جگہ سے آئے تھے۔ بعض معتبر مورخین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں ان تمام واحد الاصل قوموں کو ترک کہا جاتا تھا۔ آل عثمان جنہیں آج ترک کہا جاتا ہے اس نام کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ترک اور وحشی کے ایک ہی معنی ہیں۔
ساتویں صدی کے ایک چینی مصنف ہیون سانگ کا ام اسٹینی سلاس جولین نے قول نقل کیا ہے کہ ترک آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ وہ لکڑی کو بالکل استعمال نہیں کرتے اس لیے کہ لکڑی میں آگ ہوتی ہے۔ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں آگ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ احترام کی وجہ سے بیٹھتے نہیں۔
گیارہویں او ر تیرھویں صدی کے درمیان اویغور سلطنت کے دو ٹکرے ہوگئے۔ مغرب میں خوارزمی سلطنت قائم ہوئی اور مشرق میں قرہ خطائی چنگیز خان نے وسطی ایشیاء کو زیرو زبر کردیا اور اویغوری سلطنت تباہ ہوگئی۔ چودھویں صدی میں ازبکیوں نے جو اویغور خاندان کی ایک شاخ تھی اور جنہوں نے یہ نام فتح مند منگولوں کے ایک سردار کی یادگار کے طور پر اختیار کرلیا تھا اس سلطنت کی دوبارہ شیرازہ بندی کی گئی۔
بنی عباس اور بنو امیہ کی لڑائیوں میں ترکوں نے بنی عباس کا ساتھ دیا اور یہی وہ زمانہ ہے جب ترکوں نے ”سنیوں“ کے عقائد اختیار کئے۔ خلفائے بغداد کے لیے انہیں لوگوں نے سب سے زیادہ سپاہی مہیا کئے تھے۔ ہارون الرشید کے تیسرے بیٹے خلیفہ معتصم نے چیدہ ترکی غلاموں کی ایک محافظین کی فوج قائم کی تھی جس میں ہمیشہ ترکستان سے بھرتی کی جاتی تھی۔
طغرل بیگ ترکستان کے سلجوق بادشاہ کے پوتے نے سلجوقیوں کی قسمت کو جو آگے چل کر مشرق پر کامل قبضہ حاصل کرنے والے تھے چمکا دیا۔ اس نے غزنویوں کو مار کر ہندوستان کی طرف نکال دیا اور فارس پر قابض ہوگیا۔ چار برس تک زور آزمائی کرکے آل بویہ نے شکست کھائی اور بغداد نے نئے فاتح کے واسطے دروازے کھول دئیے۔ خلیفہ نے آل بویہ کے پنجے سے رہائی پاکر اپنے نئے آقا کو سلطان کا خطاب عطا کردیا آل بویہ کا سردار مصر کے فاطمی خلیفہ سے امداد حاصل کرکے دوبارہ صف آرا ہوا مگر اس کو شکست ہوئی اور وہ لڑائی میں مارا گیا۔طغرل بیگ نے اب خلیفہ کے نا م سے حکومت کی باگ سنبھالی اور خلیفہ کی حیثیت صرف ایک ایسے محترم بزرگ کی سی باقی رہ گئی جس کو مذہبی اقتداد حاصل تھا۔
سلجوقی سلاطین نے ابھی ابھی اسلام قبول کیا تھا۔ اس لیے ان میں ویسا ہی جوش و جذبہ تھا جو ایک نئے چیلے میں ہوتا ہے ان فتوحات کے سوا اور کسی چیز کی دھن نہیں تھی۔ طغرل بیک کے بعد اس کا بھتیجا الپ ارسلان اس کا جانشین ہوا۔ گرجستان، ارمینہ اور کیا دوشیا کو فتح کرکے وہ فریحبیا میں در آیا اور بزنطیہ کے بادشاہ رومانوس دیو جانس کو شکست دے کر گرفتار کرلیا۔ الپ ارسلان کے جانشین سلطان ملک شاہ کے زمانے میں سلجوقی سلطنت اپنے متہائے عروج کو پہنچ گئی جس نے اپنی جنگوں سے خراسان، عراق عجم خلفائے بغداد کے تمام مقبوضات اور ایشائے کوچک کا ایک بڑا حصہ رفتہ رفتہ اس کے قبضے میں آگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں