تقسیم ہند کے وقت گوادر پر پاکستان اور بھارت کی سیاست۔۔؟

تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی گوادر کی جانب پاکستان کی توجہ مرکوز ہوگئی تھی گوادر کے حصول کے لیے انڈیا نے عمان کی حکومت کو پاکستان سے دس گنا زیادہ معاضے کی پیشکش کی تھی مگر عمانی سلطان نے یہ پیشکش مسترد کردی تھی۔ستمبر 1958کے ایک شمارے میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان گوادر میں ایک بڑا ائیر پورٹ اور بحری اڈہ تعمیر کرنا چاہتا ہے یہ پیشگوئی نصف صدی کے بعد پوری ہوئی پوری دنیا میں دو قومیں ہی ہیں جو گوادر کی اہمیت کو پہنچانتی ہیں ایک برطانیہ اور دوسرا پاکستان۔ بحیرہ عرب کے کنارے واقع اس ساحلی علاقے میں پاکستان کی دلچسپی کو بڑی وجوہات تھیں پہلی معیشت اور دوسرا مضبوط دفاعی حصار گوادر ان دونوں مقاصد کی راہ میں ایک بڑی دیوار کے طور پر حائل تھا۔ اس دیوار کو گرانا ناگزیر تھا جس کے لیے پاکستان نے گوادر کو عمانی حکومت سے خریدا۔ پاکستان بننے کے بعد سخت بحران سے دو چار ہونا پڑا اقتصادی بحران، معاشی بحران یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے بھی قومی خزانے میں نہیں تھے وسائل دن بدن سکڑتے جارہے تھے اسی زمانے میں اسمگلنگ کا ایک بڑا مرکز گوادر ہی تھا اگرچہ یہاں ایک ائیر پورٹ موجود تھا مگر وہ کبھی کبھار ہی استعمال ہوتا تھا۔ 1956ء میں آخری بار اسماعیلی برادری کے پرنس علی خان کی یہاں آمد کے موقع پر رونق دیکھنے کو ملی تھی۔
پاکستان میں گوادر کے انضمام کا اعلان اس کے وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں کیا اور پاکستانی قوم کو بتایا کہ عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے گوادر کا علاقہ غیر سگالی کے جذبے کے طورپر بلا معاوضہ پاکستان کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد یہ بھی اعلان ہوا کہ آئین کی دفعہ 104کے تحت یہ علاقہ مغربی پاکستان شامل سمجھا جائے گا اور اسے خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ انضام کے وقت گوادر کی ٹوٹل آبادی 20ہزار تھی جن میں تقریباً ایک ہزار ہندو تھے۔ مگر آج یہ شہر تجارتی سرگرمیوں کے لحاظ سے پوری دنیا میں اپنی الگ پہچان اور حیثیت رکھتا ہے۔ عالمی جریدے نے 22ستمبر 1958کے شمارے میں یہ انکشاف کیا تھا کہ گوادر پاکستان کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر نہیں ملا بلکہ اس کے لیے خطیر رقم 4کروڑ 20لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ جریدے نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان نے عمانی سلطان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر اس علاقے سے تیل نکلا تو اس کا نصف حصہ آپ کو دیا جائے گا۔ اس خبر نے بڑا تہلکہ مچایا لوگ مایوس ہوگئے حکومت بھی کچھ دن تو خاموش رہی لیکن 24ستمبر 1958مغربی پاکستان کے گورنر مظفر قزلباش نے یہ سچ ہے کہ گوادر ہمیں صرف خیر سگالی کے طور پر نہیں ملا ہم نے اس کے لیے خطیر رقم ادا کی ہے لیکن انضام کے وقت خیر سگالی کی خبر اس لیے چلائی تھی کہ اس وقت بھارت بھی گوادر خریدنے میں اچھی خاصی دلچسپی رکھتا تھا اور بھارت نے ان تمام ممالک کے سامنے اپنا موقف رکھا جو اس سودے پر اثر انداز ہوسکتے تھے کہ گوادر میں ہندو برادری زیادہ ہے اس لیے گوادر بھارت کو ملنا چاہیے اور یہ بات بس پاکستان اور سلطان کے علم میں تھی کہ بھارت اس وقت جو رقم آفر کررہا تھا وہ پاکستان کی ادا کردہ رقم سے دس گنا زیادہ تھی اس وقت پھر یہ اعدادوشمار اکھٹے کیے گئے کہ گوادر میں اگر ہندو زیادہ ہیں تو گوادر بھارت کو دے دیا جائے اگر کم ہیں تو پھر پاکستان کا حق بنتا ہے اور انضام کے وقت گوادر میں 20ہزار لوگ تھے جن میں ہندو صرف ایک ہزار تھے جس کے بعد بھارت کو منہ کی کھانا پڑی جب بھارت نے سمجھا کہ ایسے بات نہیں بنتی تو اس نے اپنی ایک اور آخری کوشش کی مسققبل کا فیصلہ استصوا ب رائے کے ذریعے کروایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہندوستان کی حکومت نے وزیراعظم فیروز خان نون کو ایک خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ استصواب رائے کے انعقاد کے لئے بھارتی افسروں کو بھی وہاں آنے کی اجازت دی جائے مگر حکومت پاکستان نے بھارت کے مطالبے کو مسترد کردیا۔ یوں بھارت کی یہ آخری کوشش بھی ناکا م رہی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ گوادر میں بھارت کی دلچسپی کب کیسے اور کیوں بنی اس ساری کہانی کا آغاز جنوری 1947میں ہوا جب عمان کے سلطان نے یہ محسوس کیا کہ ان کے ملک میں گوادر ایک ایسا دور دراز علاقہ ہے جہاں کا انتظام برقرار رکھنا ان کی حکومت کے لیے مسائل سے خالی نہیں۔ اس مقصد کے لیے خلیج فارس ریزیڈسی بحرین نے بھارتی حکومت کے سیکرٹری کو خط لکھا جس میں سلطان کی طر ف سے ریاست قلات کو گوادر کی فروخت کے حوالے سے آگاہ کیا۔ برطانوی حکومت جو پہلے سے ہی اس علاقے میں دلچسپی رکھتی تھی انہوں نے پیشکش پر غور شروع کردیا۔ مگر اس وقت چونکہ آزادی کی تحریکیں بڑے ذورو شو پر چل رہی تھی اور برطانیہ کے لیے دوسری جنگ عظیم سر درد بنی ہوئی تھی لحاظ انہوں نے اس معاملے کو جنگ کے خاتمے تک ملتوی کردیا۔ 1939میں ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں یہ سراغ بھی ملا ہے کہ یہ علاقہ مکران کا حصہ اور لچکی بلوچوں کی ملکیت تھا۔ یہ ایسا سمندری علاقہ ہے جس کے ذریعے خلیج فارس پر کنڑول کے ذریعے خطے کے سٹریجیک معاملات اور بالخصو ص تجارت کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔ یہی و ہ وجہ تھی جس کی افادیت برطانوی حکومت کو نظر آئی۔
جب گوادر پاکستان کا ہوگیا تھا تو اس وقت اس زمانے میں کراچی سے گوادر تک سفر سمندری راستے سے ہوا کرتا تھا اور اس وقت 23روپے کرایہ تھا لیکن ان دنوں میں بڑھ کر 300روپے ہوگیا۔ بھارت نے آخر تک اپنی سازشوں کو نہیں چھوڑا اور گوادر میں موجود ہندوو ں کے ذریعے گوادر کے تاجروں کو نت پریشان کیا جاتا تھا کیونکہ اس وقت گوادر میں تاجر برادری کی کمان ہندو تاجروں کے پاس تھی۔ اور لین دین بھارتی روپے میں ہوتا تھا حالانکہ اس وقت گوادر مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا تھا مگر پھر بھی ہندو تاجر چھوٹوں تاجروں کو کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ کاروبار کرنا ہے تو بھارتی کرنسی میں لین دین کریں کیونکہ گوادر بھارت کا ہے پاکستان کا نہیں ہے۔ مگر ہندوستان کی ساری سازشیں خاک میں مل گئی اور آہستہ آہستہ پاکستانی حکومت نے حالات پر قابو پالیا۔
آج گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد اس شہر کو عالمی شہرت حاصل ہوچکی ہے صرف چند سال پہلے دیکھا جائے تو اس شہر کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ مگر آج یہ شہر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گوادر کی ترقی کو دیکھ کر دنیا بخوبی سمجھتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل حقیقی معنوں میں روشن اور تابناک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں