جہاد کا اعلان کب اور کیوں ہوا۔؟

قریش مکہ کو حضرت رسول اکرم ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ ایسی دشمنی تھی کہ گھر بار اور مال و متاع چھوڑ کر مدینے آجانے کے بعد بھی چین نہ لینے دیا انہو ں نے مدینے کے بت پرست قبیلوں اور یہودیوں سے ساز باز کرکے مسلمانوں کو تنگ کرنا اور ستانا شروع کردیا۔
جب رسول اکرم ﷺ نے دیکھا کہ قریش مکہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور مسلمانوں کو مدینے میں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اپنے ساتھیوں کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی حفاظت او ردین کو بچاؤ کے لئے خدا کی راہ میں لڑیں۔ جس لڑائی میں حضرت رسول اکرم ﷺ خود شامل ہوئے اس کو غزوہ کہتے ہیں ایسی بہت سی لڑائیاں غزوات کہلاتی ہیں۔

جہاد فی سبیل اللہ:
ذاتی حفاظت اوردین کو بچانے کے لیے خدا کی راہ میں لڑنے کوجہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔

جہاد کے تین درجے ہیں :
1۔ جہادنفس۔
اپنے آپ کو حق و صداقت اور رشد و ہدایت کی تلاش و جستجو پر مجبور کرنا جہاد نفس ہے۔ اس کے بغیر دین و دنیا کی سعادت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر علم کے بعدعمل کے لیے نفس کو مجبور کرنا، علم و عمل کے بعد تعلیم و تبلیغ کے ذریعے دین حق کو پھیلانا او ر اس کی راہ میں مصائب و تکالیف کو خندہ پیشانی او رصبر و اسقتلال سے برداشت کرنا بھی جہاد ہے۔
2۔ جہادِشیطان۔
شیطان ایمان میں شکوک و شہبات پیداکرکے انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں شیطانی وسوسوں کا مقابلہ کرنا جہاد شیطان کہلاتا ہے اس کے بعد شیطان کے پیدا کردہ برے خیالات اور بد ارادوں کو روکنے اور ان سے بچنے کی کوشش کرنا یقین اور صبر پیدا کرتا ہے۔
3۔ جہادِ کفار۔
دل و زبان سے مال، و جان سے خدا کی راہ میں کافروں اور منافقوں سے برسر پیکار ہونا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو کوئی جہاد کے بغیر یا کم از کم اس کی تمنا کیے بغیر مر جائے اس کی موت مسلمانوں کی موت نہیں بلکہ ایک لحاظ سے منافق کی موت ہے، جہاد نفس اور جہاد شیطاں فرض عین ہے جہاد کفار و منافقین کبھی فرض عین ہوتا اور کبھی فرض کفایہ۔ اگر ضرورت کے مطابق لوگ میدان جنگ میں مصروف ہوں تو باقی امت پر فرض نہیں ہوتا مگر بصورت دیگر سب پر فرض عین ہوجاتا ہے۔ باقاعدہ نظام حکومت کی صورت میں یہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر عوام سستی کریں تو حکومت وقت جبری بھرتی کرسکتی ہے۔حکومت کی موجودگی میں افراد کو انفرادی طور پر اجازت نہیں۔
جہاد سے دین کی حفاظت و مدافعت اور خدا کا بول بالا کرنا مقصود ہوتا ہے۔

غلط فہمی کا ازالہ:
بعض ناواقف اور بے سمجھ لوگوں نے جہاد سے یہ مطلب نکالا کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا، حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے قرآن مجید میں اس بات کی صراحت و وضاحت کردی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں جبر ہرگز جائز نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز جن حالات میں کیا وہ سب کے سامنے ہیں مکہ مکرمہ میں جب اعلان توحید کیا گیا تو کس کے ہاتھ میں تلوار تھی؟
حضرت خدیجہ ؓ ایمان لائیں، حضرت علی ؓ ایمان لائے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ عثمان ؓ زبیر بن عوام ؓ سعد بن ابی وقاص ؓ عبدالرحمن بن عوف ؓ اور کئی جلیل القدر صحابہ کرام ؓ ایمان لائے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ جیسے جری اور نڈر بھی مسلمان ہوئے۔ خالد بن ولید ؓ اورعمرو بن خاص ؓ جیسے بہادر اور جنگجو سپہ سالار بھی اسلام لائے۔ درحقیقت اسلام کی سچائی، عدل و انصاف، مساوات اور اخوت ہی تو تھی جو دلوں کو مسخر کررہی تھی۔

جہاد کا مقصد:
جہاد کی ایک غرض و غایت ذاتی دفاع تھی۔ مظلوم کو قرآن مجید نے اجازت دے دی کہ وہ ہتھیار اٹھائے اور ناحق بے وطن کیے جانے کا انتقام لے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ کمزوروں و ناتواں مردوں، عورتوں اور بچوں کی فریاد سن کر ان کی امداد اعانت کو نکلو۔ جہاد کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ و اشاعت کی راہ سے روک ٹوک ختم کردی جائے تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کو کسی قسم کی مزاحمت پیش نہ آنے پائے۔
جب یہود مدینہ نے بد عہدی کرکے مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے تعاون کیا تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن مجید اجازت دے دی کہ بد عہدی اور خیانت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ان کے خلاف اعلان جنگ کردو اور انہیں چن چن کر قتل کردو۔
تاجدارِ کائنات ﷺ نے بنفس نفیس ستائیں چھوٹی بڑی جنگوں اور مہموں میں شرکت فرمائی اور 38لڑائیوں اور مہموں پر لشکر روانہ فرمائے۔ ان جنگوں میں غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ موتہ خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں