حماس تنظیم کس کی ہے۔؟

حرکتہ المقاومۃ اسلامیہ یعنی حماس تحریک مزاحمت اسلامیہ یہ تنظیم فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی قومیت، بنیاد پرست تنظیم ہے۔ حماس تنظیم کی بنیاد 1987ء میں اسرائیل کی فلسطین میں جارحیت کے خلاف شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ اس تنظیم کا سب سے بڑا ایجنڈا یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت کرنا اور کسی بھی صورت میں اسرائیلی فوج کو فلسطین کی سرزمین سے باہر نکالنا ہے۔ اسی مقصد کو لے کر حماس آئے روز اسرائیلی فوج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ حماس کا مقصد فلسطین کا دفاع اور اسے اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے برقرار رکھنا ہے۔ اسرائیل کے سابق صدر عرفات کے انتقال کے بعد حماس نے مقامی سطح پر ہونے والے انتخابات میں بھی حصہ لیا اس کے نتیجے میں غزہ، قلقیلیا اور نابلس کے علاقوں میں کافی نشستوں پر بھرپور کامیابی بھی حاصل کی مگر حماس کی حالیہ انتخابا ت میں کامیابی اس کی اصل فتح ہے جس پر اسرائیل سمیت عالمی طاقتیں پریشانی کا شکار ہیں۔ فلسطین کے اس پرانی تنظیم کے سیاسی اور عسکریت پسند بازو موجود ہیں۔ حماس کے کئی نامعلوم سرگرم کارکن تو ہیں ہی اس کے علاوہ ہزاروں لوگ ملک کے اندر اور باہر اس کے حمایتی بھی ہیں۔
یہ دسمبر 2002کی بات ہے جب حماس نے غزہ شہر میں اپنی تنظیم کی پندریویں سالگرہ کے موقع پر غزہ شہر میں ہونے والی ایک ریلی میں 40ہزار کے قریب لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم 2025ء تک اسرائیل کو صفحہ ہستی سے ختم کردیں گے۔
2004ء احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی کی شہادت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں فلسیطینی ان کی شہادت کے خلاف سٹرکوں پر نکل آئے۔
حماس بنیادی طور پر دو انتظامی گروہوں میں منقسم ہے،پہلا گروہ معاشرتی امور کو دیکھتا ہے جیسے کہ اسکولوں، ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر میں مصروف عمل رہتا ہے اوردوسرا گروہ اسرائیلی فوج کے خلاف ہر وقت میدان جنگ میں رہتا ہے حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں پر اس کے ایک رہنما خالد مشعل ہیں جن کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ ناکام رہے۔
اردن کے شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا مگر ان کے جانشین کنگ عبداللہ دوم جن کے متعلق مشہور ہے کہ ان کی والدہ ایک غیر ملکی انگریز تھی شاہد اسی وجہ سے انہوں نے حماس کے ہیڈ کوارٹر کو بند کردیا اور جماعت کے سب سے بڑے رہنما کو جلاوطن کرکے قطر بھیج دیا۔
ا س خطے میں قیام امن کے سلسلے میں امریکہ کی پشت پناہی میں ہونے والے اوسلو امن معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش رہی تھی۔
اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیل ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔
1995ء میں حماس نے اپنے ایک کارکن یحییٰ عیاش جن کو بم بنانے میں مہارت تھیں جب اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تو حماس نے اپنے اس قیمتی کارکن کی شہادت کے بدلے 1996کے فروری اور مارچ کے مہینے میں ہر آنے جانے والی بس کو خود کش دھماکوں کا نشانہ بنایا جو اسرائیل کی جانب سے تھیں یحیی عیاش کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہر قسم کے بم بنانے کے ماہر تھے اور حماس کا گوریلا کمانڈر بھی تھا اس یحیی عیاش کو اسرائیلی مہندس الموت یعنی موت کا انجینئر کہتے تھے۔
عیاش حماس کا وہ کارکن کا تھا جس کے سائے سے بھی اسرائیل ڈرتا تھا جب تک وہ شہید نہیں ہوئے تھے تو اسرائیلی فوج ہر وقت خوف میں رہتی تھی کہ نجانے کب اور کہاں پہ خود کش دھماکہ ہوجائے۔ اسرائیلی نیتن یاہو کی انتخابات میں کامیابی اوسلومعاہدے کی مخالفت کی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ اوسلو میں امن معاہدوں پر اسرائیل کو بڑی تشویش تھی اور ان امن معاہدوں کو اسرائیل نے ہی توڑا تھا۔
حماس نے مہاجرین کے کیمپوں اور گاؤں کی سطح تک علاج کے لئے شفاخانے بچے کے پڑھنے کے لئے اسکول قائم کیے فسلطینی بھی فلسطین کی نااہل اور بدعنوان قیادت سے مایوس تھے اور جب حماس خود کش حملے کررہا تھا تو اس پر فلسطینی لوگ خوش تھے یہی وجہ تھی کہ حماس نے اپنی ان پالیسیوں کے برعکس 2006کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی حماس کو لگاتار طاقتور ہوتے دیکھ کراسرائیل سمیت عالمی طاقتوں کو ہضم نہیں ہورہا تھا اور عالمی طاقتوں نے حماس کے خلاف الفتح گروہ کو لاکھڑا کیا 2007ء میں حما س اور الفتح کے درمیان اختلاف میں کافی شدت بڑھ گئی اور فلسطین کے اندر ہی ایک خانہ جنگی کا سماں سا بن گیا آخر کار عالمی طاقتوں کی حمایت سے الفتح جماعت کے رہنما محمود عباس 2007میں حماس کی جمہوری حکومت کو توڑ کر فلسطین خود ساختہ وزیراعظم بن گئے محمود عباس جب وزیراعظم بنے تو سب سے پہلے کامیابی کی مبارکباد ان کو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ملی یعنی ان کی کامیابی تک محمود عباس کو اسرائیل اور امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں