دورِ حاضر کے طلبہ کی سب سے بڑی مشکل کیا ہے ۔؟

ہمارے ملک میں دور حاضر کی تعلیم کی سب سے زیادہ نقصان دینے والی خرابی یہ ہے کہ تدریس Teacher orientedہے یہ Student Orientedنہیں۔ ہم اساتذہ کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں ہم نے اپنا نصاب وقت پر ختم کرادیا ہے۔ گویا ان کا فریضہ پورا ہوگیا اب طلبہ جانیں اور ان کا امتحان وہ پاس ہوں یا فیل اب یہ ان کا درد سر ہے اساتذہ کا نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک استاد کی ذمہ داری صرف پڑھانا اور نصاب ختم کرانا ہے کیا یہ ان کا مسئلہ نہیں کہ طلبہ نے کیا سیکھا ہے؟
اصل توجہ تو استاد کو اس بات پر دینی ہوتی ہے کہ کیا طلبہ نے ان کے لیکچرزسے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں؟طالب علم اگر بہتر طور پر سیکھ جائے جو استاد نے پڑھایا ہے اور وہ اپنی تعلیم کے اہداف تک رسائی حاصل کرلے تو اسے استاد کی کامیابی کہیں گے۔
جہاں تک طلبہ کا تعلق ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ
وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست ہوں ذہنی طور پر معذور بچوں کے لئے الگ تعلیمی ادارے ہوں۔
جبکہ جسمانی طور پر معذوز مگر ذہنی طو ر پر صحت مند طلبہ کی تعلیم میں کوئی روکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے.
ماہرین کے خیال میں 16سال کی عمر تک ایک بچے کی سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نئی نئی چیزیں سیکھنے کی عمر 16سے 24برس تک ہوتی ہے۔ پھر 70برس تک کی عمر تک سیکھنے کے عمل اور صلاحیت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تاہم معمر افراد اپنی قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر نسبتاً جلد سیکھتے ہیں۔ اس میں ان کے ماضی کے علم اور تجربے کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
مردوں اور عورتوں میں سیکھنے کی صلاحیت کم وبیش یکساں ہوتی ہے۔ البتہ ان کے کام کرنے کے میدان مختلف ہوتے ہیں۔ جن ٹیکنیکل کاموں میں زیادہ برداشت،جرات، صبر اور قوت ہوتی ہے انہیں مرد عورتوں کی نسبت بہتر طو ر پر سیکھ لیتے ہیں۔ عورتیں وہ کام آسانی سے اور مردوں کی نسبت بہتر طور پر سیکھ لیتے ہیں جن میں انگلیوں اور ہاتھوں سے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ جزئیات تک نرم و آسان کاموں میں بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں مثلاً کشیدہ کاری نازک برقی آلات کو جوڑنے کا کام نرسنگ وغیرہ۔ خواتین سکول کی سطح پر بہتر اساتذہ ثابت ہوتی ہیں اور مرد کالج کی سطح پر۔

بامقصد تعلیم سے ہمیں کیا حاصل ہوا۔؟
یہ جاننے کے لیے بامقصد تعلیم سے ہم نے حاصل کیا کچھ کیا، امتحانات کو اس کے لئے ضروری قرار دیا گیا۔ کسی بھی تعلیمی پروگرام میں طلبی اور اساتذہ کی لیاقت کو جانچنے کے لیے امتحانات کا نظام رائج ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
حصول تعلیم نے اہداف کس حد تک حاصل کرلیے۔
وہ افراد جو تدریس کے فریضے کو لے کر تعلیم دے رہے تھے وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوئے اس لئے کہ وہ معاشرے کے سامنے جوابدہ ہیں۔
اگر ذہن صاف ہو اور اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امتحان خود ایک مقصد یا منزل نہیں بلکہ کسی منزل تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔
امتحان ایک طالب علم کو جہالت کی اتھا ہ گہرائیوں سے اٹھا کر حکمت و دانائی کی بلندیوں تک لے جاتا ہے یہ حکمت و دانائی اس کائنات کی تخلیق میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے امتحانی نظام بڑا فرسودوہ ہوچکا ہے۔ ہمارے ہاں امتحانات طویل وقفوں کے بعد اگلی جماعت میں ترقی اور سند کے اجزاء کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔
امتحانات کو اساتذہ اور طلبہ دونوں تعلیمی عمل کا ایک اختتام تصور کرتے ہیں گویا تعلیم کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔
بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں چھ چھ ماہ تو صرف امتحانات کی تیاری میں ضائع ہوجاتے ہیں پھر کئی کئی ماہ ان کے نتائج کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام گریجویٹ کے دو سال اور ایک پیشہ وارانہ شعبے کے طالبعلم کی قیمتی زندگی کے تین برس ضائع ہوجاتے ہیں۔
یقینی کامیابی کے گیس پیپرز اور رٹا شاندار کامیابی کی ضمانت ٹھہرتے ہیں۔ بوٹی مافیا، سفارش،رشوت دے کر نمبروں میں اضافے کی بیماری نے محنتی، لائق اور باصلاحیت طلبہ کا مستقبل تاریک کردیا ہے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا، جس کے بغیر حکومتی مشینری اور میڈیکل انجینئرنگ کے شعبوں میں ایسے نالائق نااہل بددیانت افراد داخل ہوتے رہیں گے جو کسی ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں دور حاضر کی تعلیم کی سب سے زیادہ نقصان دینے والی خرابی یہ ہے کہ تدریس Techer orientedہے یہ Student Orientedنہیں۔ ہم اساتذہ کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں ہم نے اپنا نصاب وقت پر ختم کرادیا ہے۔ گویا ان کا فریضہ پورا ہوگیا اب طلبہ جانیں اور ان کا امتحان وہ پاس ہوں یا فیل اب یہ ان کا درد سر ہے اساتذہ کا نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک استاد کی ذمہ داری صرف پڑھانا اور نصاب ختم کرانا ہے کیا یہ ان کا مسئلہ نہیں کہ طلبہ نے کیا سیکھا ہے؟
اصل توجہ تو استاد کو اس بات پر دینی ہوتی ہے کہ کیا طلبہ نے ان کے لیکچرزسے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں؟طالب علم اگر بہتر طور پر سیکھ جائے جو استاد نے پڑھایا ہے اور وہ اپنی تعلیم کے اہداف تک رسائی حاصل کرلے تو اسے استاد کی کامیابی کہیں گے۔
جہاں تک طلبہ کا تعلق ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ
وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست ہوں ذہنی طور پر معذور بچوں کے لئے الگ تعلیمی ادارے ہوں۔
جبکہ جسمانی طور پر معذوز مگر ذہنی طو ر پر صحت مند طلبہ کی تعلیم میں کوئی روکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے.
ماہرین کے خیال میں 16سال کی عمر تک ایک بچے کی سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نئی نئی چیزیں سیکھنے کی عمر 16سے 24برس تک ہوتی ہے۔ پھر 70برس تک کی عمر تک سیکھنے کے عمل اور صلاحیت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تاہم معمر افراد اپنی قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر نسبتاً جلد سیکھتے ہیں۔ اس میں ان کے ماضی کے علم اور تجربے کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
مردوں اور عورتوں میں سیکھنے کی صلاحیت کم وبیش یکساں ہوتی ہے۔ البتہ ان کے کام کرنے کے میدان مختلف ہوتے ہیں۔ جن ٹیکنیکل کاموں میں زیادہ برداشت،جرات، صبر اور قوت ہوتی ہے انہیں مرد عورتوں کی نسبت بہتر طو ر پر سیکھ لیتے ہیں۔ عورتیں وہ کام آسانی سے اور مردوں کی نسبت بہتر طور پر سیکھ لیتے ہیں جن میں انگلیوں اور ہاتھوں سے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ جزئیات تک نرم و آسان کاموں میں بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں مثلاً کشیدہ کاری نازک برقی آلات کو جوڑنے کا کام نرسنگ وغیرہ۔ خواتین سکول کی سطح پر بہتر اساتذہ ثابت ہوتی ہیں اور مرد کالج کی سطح پر۔

بامقصد تعلیم سے ہمیں کیا حاصل ہوا۔؟
یہ جاننے کے لیے بامقصد تعلیم سے ہم نے حاصل کیا کچھ کیا، امتحانات کو اس کے لئے ضروری قرار دیا گیا۔ کسی بھی تعلیمی پروگرام میں طلبی اور اساتذہ کی لیاقت کو جانچنے کے لیے امتحانات کا نظام رائج ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
حصول تعلیم نے اہداف کس حد تک حاصل کرلیے۔
وہ افراد جو تدریس کے فریضے کو لے کر تعلیم دے رہے تھے وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوئے اس لئے کہ وہ معاشرے کے سامنے جوابدہ ہیں۔
اگر ذہن صاف ہو اور اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امتحان خود ایک مقصد یا منزل نہیں بلکہ کسی منزل تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔
امتحان ایک طالب علم کو جہالت کی اتھا ہ گہرائیوں سے اٹھا کر حکمت و دانائی کی بلندیوں تک لے جاتا ہے یہ حکمت و دانائی اس کائنات کی تخلیق میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے امتحانی نظام بڑا فرسودوہ ہوچکا ہے۔ ہمارے ہاں امتحانات طویل وقفوں کے بعد اگلی جماعت میں ترقی اور سند کے اجزاء کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔
امتحانات کو اساتذہ اور طلبہ دونوں تعلیمی عمل کا ایک اختتام تصور کرتے ہیں گویا تعلیم کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔
بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں چھ چھ ماہ تو صرف امتحانات کی تیاری میں ضائع ہوجاتے ہیں پھر کئی کئی ماہ ان کے نتائج کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام گریجویٹ کے دو سال اور ایک پیشہ وارانہ شعبے کے طالبعلم کی قیمتی زندگی کے تین برس ضائع ہوجاتے ہیں۔
یقینی کامیابی کے گیس پیپرز اور رٹا شاندار کامیابی کی ضمانت ٹھہرتے ہیں۔ بوٹی مافیا، سفارش،رشوت دے کر نمبروں میں اضافے کی بیماری نے محنتی، لائق اور باصلاحیت طلبہ کا مستقبل تاریک کردیا ہے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا، جس کے بغیر حکومتی مشینری اور میڈیکل انجینئرنگ کے شعبوں میں ایسے نالائق نااہل بددیانت افراد داخل ہوتے رہیں گے جو کسی ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں