زندگی میں سخت فیصلے ہی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔

سوچیے آپ بیس منزلہ عمارت کی چھت پہ کھڑے ہیں آپ کے سامنے اسی طرح کی بیس منزلہ اور عمارت ہے۔ درمیان میں 20میٹر کا فاصلہ ہے دونوں چھتوں کے درمیان دو فٹ کا لکڑی کا ایک تختہ ہے۔ آپ سے کہا جائے کہ اس چھت سے لکڑی کے تختے پہ چلتے ہوئے دوسری عمارت کی چھت پہ آجائیں نیچے سینکڑوں فٹ کی گہرائی ہو کیا آپ جائیں گے۔؟
آپ اپنے آپ سے سوال کریں گے کہ ایسی کونسی مصیبت آن پڑی ہے کہ میں اتنا بڑا خطرہ مول لو تب آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے اس عمارت سے دوسری عمارت پہ جانا ہے آپ کو ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا مگر آپ انکار کردیتے ہیں پھر آپ سے کہا جاتا ہے لو دس ہزار انعام ملے گا مگر آپ پھر بھی انکار کردیتے ہیں پھر کہا جاتا ہے چلیں دس لاکھ روپے انعام ملے گا آپ یہ بہادری کا مظاہرہ کرکے دیکھائیں حتی کہ دس کروڑ کا انعام بھی ہوتو آپ کا یہی جوا ب ہوگا کہ کیونکہ شاہد ہی کوئی ایسا ہو جو اپنی جان پیسوں کی خاطر خطرے میں ڈالے کیونکہ جان تو آخر سب کو پیاری ہوتی ہے۔
اگر یہی لکڑی کا دو فٹ چوڑا اور بیس میٹر لمبا تختہ زمین پر پڑا ہوتو ہر شخص 100روپے میں بھی یہ چیلنج قبول کرلے گا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے 400فٹ اوپر اسی پھٹے پہ چلنے میں کیا مسلہ ہے۔۔؟
اصل چیز ڈر ہے جو دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ اف اتنی اونچائی پہ چلتے ہوئے اگر میں گر گیا تو میری جان بھی چلی جائے گی بس یہی ڈر آپ کو دس کروڑ کے انعام سے بھی محروم کر کے بیٹھا ہے۔ اس لیے اب ہم ایک چیز کو بھول گئے ہیں جو شروع میں ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی بھلا کیا انعام کی رقم۔
انعام کی خطیر رقم جس کی ہمیں شدید ضرورت بھی ہے پھر بھی ہمارا دھیان اس انعام پہ ٹھہرتا نہیں کیونکہ جو ڈر ہمارے دل میں بیٹھا ہوا ہے وہ ہمیں انعام کی طرف بڑھنے نہیں دے رہا ہمیشہ ایسے کیوں ہوتا ہے کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے اکثر لوگ اسی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ اس میں یہ ہوگا وہ ہوگا اگر انسان نتائج سے بلا خوف ہوجائے تو منزل بھی مل جاتی ہے جو لوگ فیل ہوجاتے ہیں وہ ڈر کو لیکر اپنی مشن سے ناکام ہوجاتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈر میں آخر کیا کشش ہے؟جی ہے یہ ڈر ہمیں سکون کی لوری دیتا ہے ہمیں یہ کہہ کر بہلاتا ہے کہ ادھر تم محفوظ ہو ادھر تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ سکون انسان کو جھوٹے دلاسے دیتا رہتا ہے اور یہی ڈر ہے جو ہمیں انعام اور بڑے بڑے مقاصد کے حصول سے دو رکردیتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے یہی ڈر ہمیں بے سکونیوں کی گہرائیوں میں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔
آپ نے عمر بھر ڈر کا ساتھ دیا ڈر ہمیشہ آپ کو وقتی دلاسہ دے کر بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے چینی کی زندگی عنایت کرجاتا ہے یہ ڈر ہمارے دل میں تصوراتی خوف کے ایسے پہاڑ کھڑے کرتا ہے کہ اس کے بوجھ سے ہمارا دل لرز جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ ڈراپنی آغوش میں لے کے ہماری صلاحیتوں کو ہمارے ٹیلنٹ کو،ہماری خوبیوں کو اور ہمارے خوابوں کو سکون کی نیند سلا دیتا ہے۔
آپ کے اسی ٹاپک کو اب تھوڑا سا بدلتے ہیں۔
اس بار بیس منزلہ عمارت کی چھت پہ کھڑے ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ دوسری بیس منزلہ عمارت کو آگ لگ گئی ہے۔ لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں کچھ لو گ آپ کی طرف امید لگاکے دیکھتے ہیں۔ آپ کو آواز دیتے ہیں کیا آپ جائیں گے ہر گز نہیں جائیں گے مگر آپ کا دل بھی کرے گا کہ کیوں نہ جاکر کسی کی جان بچا لو اوپر سے ایک جان بچانے پہ ایک کروڑ انعام بھی ہوتو دل مدد کو اور بھی بے چین ہوجائے گا۔ لیکن درمیان میں وہی دو فٹ کا بیس میٹر لمبا لکڑی کا تختہ ہے یہ دیکھ کر آپ کے قدم رکھ جائیں گے۔
اور اگر آپ دیکھتے ہیں کہ دوسری بلڈنگ کی چھت پہ آپ کا چار سال کا بچہ ہے اور پوری دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے بچا نہیں سکتا تو کیا اس بار آپ پھٹے پہ چل کے اس کے پاس دوسری بلڈنگ پہ اسے بچانے پہنچ جائیں گے۔؟
کویا ڈر آتا ہی تب ہے جب ہمارے پاس کام کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی جب آپ کے پاس کسی ہدف کو، کسی خواب کو کسی منزل کو کسی مشن کو پورا کرنے کی وجہ ہوتو پھر کسی بھی قسم کا ڈر انسان کو اس کی منزل سے ڈرا نہیں سکتا تب ہی انسان اس ڈر کو ختم کرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچتا ہے جس کو عرف عام میں رسک بھی کہتے ہیں تاریخ گواہ ہے جن لوگوں نے زندگی میں کسی بڑے مقصد کے لیے رسک لیا وہ کامیاب ہوئے اور جو ڈرتے رہے اور نتائج کی پرواہ کرتے رہے وہ ناکام ہوئے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں کوئی ایسا ہے جو ان کے کامیاب ہونے کی وجہ ہے۔ جو ان کی بہترین صلاحیتوں کو ”وجہ“ کی چابی دیتا ہے۔ جو ان کے چھپے ہوئے پوٹینشل کے آتش فشاں کو خواب کی چنگاری دکھاتا ہے جو ان کی خوف سے ڈری آنکھوں میں شاندار مستقبل کی امید بن کے جگمگاتا ہے۔ جو ان کے تھکن زدہ لہو لہو پیروں میں اپنی محبت سے اک نہی طاقت بھر دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں