سر سیداحمد خان کی سیاسی حکمت عملی۔

جب 1857ء کی جنگ کے بعد مسلمانوں کو بالکل بے بس کردیا گیا۔ مسلمان سیاسی لحاظ سے کمزور ترین ہوگئے۔ تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر تقریبا بند کردئیے گئے۔ مظلومیت کا شکار مسلمان غلامی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہوگئے۔ ایسے دلگیر اور دلسوز حالات میں مسلمانوں کی ڈوبتی ناو کو سہارا دینے کے لیے درد دل رکھنے والے جو چند مخلص لو گ آگے بڑھے ان میں ایک نام سرسید احمد خان کا بھی ہے جنہوں نے مسلمانوں کی حمایت کے لیے اپنی زندگی میں تعلیمی، تحقیقی،ادبی، سیاسی، سماجی زندگی کے ہر قسم کے علمی اور قومی مشاغل میں حصہ لیا۔ ان کا نام ”سیر سید احمد خان“ تھا انگریز حکومت نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ”سر“ کا خطاب دیا پھر یہ لفظ سر ہمیشہ کے لئے ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد چلاک اور موقع پرست قوم ہندووں نے اپنی صفائی پیش کرکے انگریزوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ لیکن مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ بغاوت اور مقابلہ کے لیے آمادہ، جبکہ دوسرا مفاہمت اور صلح پسندی کا خواہشمند تھا۔ اس وقت انگریزوں کے ساتھ مفاہمت و صلح پسندی کا آغاز سرسید احمد خان کی طرف سے ہوا۔ ان کا یہ قدم حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ چلاک و عیار انگریز کے ساتھ مفاہمت کرکے مسلمانوں کو پہلے تعلیمی اور معاشی طو ر پر مضبوط کیا جائے پھر مسلمان اپنا کھویا ہوا تشخص و عہد واپس چھین لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ انگریز وں کی طرف سے لگایا گیا مسلمانوں پرغدرکا الزام کا دفاع کرنے کے لئے 1859ء میں ایک کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ لکھی اور یہ کتاب ارکان پارلیمنٹ تک بھی بھجوائی۔ 1870ء میں رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ لکھا۔ جس میں مسلمانوں کی مطلوب اصلاح معاشرتی پہلووں کی نشاندہی کرکے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی خامیوں کو فوری د ور کرنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ”انجمن ترقی مسلمانان ہند“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ 1875ء میں اس ادارے نے ”ایم اے او“ ہائی سکول قائم کیا۔ جس میں جدید اور مشرقی علوم کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دیا۔
اور 1898ء میں اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام دیا گیا۔ یہ یونیورسٹی اپنی تاریخ میں مسلمانوں کی ثقافت، تہذیب اور شناخت کا اہم مرکز رہی ہے۔ سر سید احمد خان نے درجنوں کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھے۔ جن کے ترجمے ان کی زندگی میں ہی انگریزی، فارسی، فرانسیسی میں ہونے لگے۔ سر سید احمد خان کی سیاسی حکمت عملی کی اصلی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم ثابت کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کے آگے بڑھایا۔
صحافت سے سر سید کا تعارف ان کے بڑے بھائی سید محمد خان کے اخبار”سید الاخبار“ کے ذریعے ہوا۔ جو 1841ء میں دہلی میں جاری ہوا۔ پھر جب بڑ ے بھائی کا انتقال ہوگیا انتقال کے بعد سر سید نے اس اخبار کی ادارتی ذمہ داری سنبھالی تو اس کا نام بدل کر ”مطیع الاخبار“ رکھ دیا۔ 1842ء میں سیرت نبوی ﷺ پر اردو زبان میں ایک کتاب ”جلاء القلوب بذکر المحبوب“ لکھی 1861ء میں ولیم میور نے کتاب لکھی۔ جس میں شان رسالت پر بے جا اعتراضات کیے گئے تھے۔ سر سید احمد خان نے ان کا جواب دینا ضروری سمجھا اور ایک کتاب ”خطبات احمدیہ“ لکھی جو 1970ء میں لندن میں شائع ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں