سوا دو کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم کیوں ہیں۔؟

تعلیم خود آگاہی کا نام ہے تعلم، اخلاقیات کا درس تعلیم اپنے اور دوسروں ک حقوق جاننے کا اہم ترین ذریعہ ہے تعلیم کے بغیر انسان معاشرے کا بہتر فرد نہیں بن سکتا، نہ ہی اچھے اور برے کی تمیز کرپاتا ہے۔ علم ایک لازوال دولت ہے جس نہ کوئی چرا سکتا ہے اور نہ کوئی آپ سے چھین سکتا ہے تعلیم کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ دین اسلام میں سب سے پہلا حکم ہی ”اقراء“ یعنی پڑھنے کا آیا ہے۔ اس بات کا ثبوت خدا کے نزدیک علم کا حصول حد درجہ قدر رکھتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ترجمہ: کیاعلم والے اور بغیر علم والے برابر ہوسکتے ہیں (سورۃ زمر۔ آیت 9)

دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات کی کامیابی بھی تعلیم ہی سے مشرو ط ہے کہا جاتا ہے کہ قوموں کا مستقبل بنانے اور انکی قسمت سنوارنا تعلیم یافتہ لوگوں پر مخصر ہے، یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ تعلیم قوموں کو جنم دیتی ہے یہ تعلیم ہی تھی جس کی بدولت ہم من حیث القوم جاگے او ر الگ وطن حاصل کرلیا۔
دنیا میں جن قوموں نے تعلیم پر توجہ دی وہ باقی قوموں پر سبقت لے گئی اور جن قوموں نے تعلیم پر توجہ نہ دی وہ غلامی کی زندگی جینے پر مجبور ہوگئیں۔
آئیے آج آپ کو پاکستان کے تعلیمی میدان کا احوال بتاتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیم کی صورتحال :
پاکستان کی آبادی کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے وزات تعلیم کے مطابق اب تک کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس خطے میں پاکستان تعلیمی میدان میں 9ممالک میں 8ویں نمبر پر ہے یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کو تعلیمی میدان میں اب تو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے پورے خطے میں پاکستان تعلیمی میدان میں اب تک صرف افغانستا ن سے بہتر ہے خطے کے باقی تمام ممالک پاکستان سے آگے ہیں۔ وزارت تعلیم کی گزشتہ 10سالوں کی رپور ٹ میں بتایا گیا کہ سال 2008ء میں بنگلہ دیش تعلیمی میدان میں پاکستان سے پیچھے تھا البتہ اب وہ چوتھے نمبر پر جبکہ پاکستان 8ویں نمبر پر ہے۔
مالدیپ تعلیمی میدان میں سب پر بازی لے چکا ہے جہاں شرح خواندگی 99فیصد ہے، سری لنکا 91فیصد شرح خواندگی کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور ایران 86فیصد تعلیم یافتہ آبادی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 73فیصد اور بھارت کی 69فیصد ہے جبکہ پاکستان کی شرح خواندگی انتہائی خطرناک 59فیصد اور افغانستان کی 32فیصد ہے۔

پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ بیس ہزار اسکول ہونے کے باوجود اب بھی دو کروڑ بیس لاکھ کے قریب بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ 2018ء کے ملینیم ترقیاتی سروے کے مطابق صرف 57فیصد طلباء پانچ سال سے لے کر 9سال تک زیر تعلیم آئے جبکہ پہلے یہ ہدف 56فیصد کے تناسب سے تھا۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں خواندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہاں بچوں کے اسکول میں داخلوں میں اضافے کی شرح محض 0.92فیصد ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ملک کے تمام بچوں کے اسکول میں داخلوں کی سو فیصد شرح کا ہدف حاصل کرنے میں ابھی ہمیں مزید 60سال کا وقت درکا ہے۔

تعلیم کا فقدان کیوں۔؟
معیاری تعلیم کی فراہمی ہرمہذب ریاست کی اولین ترجیحی حیثیت کی حامل ہے جبکہ معیاری تعلیم کا حصول ہر فرد کا حق ہے پاکستان میں تعلیم کا شدید فقدان پایا جاتا جس میں عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب برابر کے شریک ہیں اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں کم تعلیمی بجٹ، تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیم نسواں کا نہ ہونا، وسائل کی کمی، والدین کی غفلت۔

کم تعلیمی بجٹ:
پاکستان میں تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے سال 2020-21کے وفاقی بجٹ جسکا کل حجم 71کھرب سے زاہد تھا، اس میں تعلیم کیلئے صرف ساڑھے چار ارب مختص تھے۔ پنجاب کے لیے 22کھرب سے زاہد کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 391ارب مختص کیے گئے تھے۔ سند ھ کے 12کھرپ 89کروڑ 79لاکھ کے بجٹ میں 179ارب روپے اور 15ارب کے ترقیاتی منصوبے الگ تھے۔ کے پی کے میں 900ارب سے زاہد کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 30ارب مختص کیے گئے تھے۔ بلوچستان کے لیے 465ارب کے بجٹ میں 71ارب مختص کیے گئے جوکہ بلوچستان میں پچھلے سالوں کی نسبت قدرے زیادہ ہے مگر بدقسمتی سے یہ پیسہ بھی تعلیم پر نہیں لگتا یہ بھی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے اگر ایمانداری سے یہی پیسہ لگایا جائے تو ہمارا شعبہ تعلیم بہتر ہوسکتا ہے مگر ہر سال بجٹ میں ایک تو تعلیم کے لیے بجٹ بہت کم رکھا جاتا ہے دوسرا جو رکھا جاتا ہے وہ بھی ایمانداری سے نہیں لگتا وہ بھی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے یہ بہت بڑ المیہ ہے۔

ہمارے کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے تو محروم ہیں جبکہ لاکھوں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سہولیات بھی میسر نہیں۔، پورے ملک میں کل ملاکر 200کے قریب نجی اور سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔جوکہ آبادی کے جم خفیر کے لیے ناکافی ہیں اسی طرح تعلیم کی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے جیسا کہ لیبارٹریز، بہترین انفراسٹرکچر، مفت تعلیمی مواد خصوصاً کتابیں، بیگز اور اسٹیشنری وغیرہ کی کمی ہے۔

تعلیم نسواں کی کمی:
حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“اس حدیث کی روسے علم کے حصول کی اہمیت واضح ہے یعنی مرد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورت کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت وہ بچے جو اسکول جانے سے محروم ہیں ان میں 59فیصد بچیاں ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے لحاظ سے سب سے پسماندہ پشتون خواتین ہیں جن کی 70فیصد تعداد دسویں جماعت سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں جبکہ اسی ادارے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 1فیصد خواتین انٹر پرینیور ہیں جو جنوبی ایشیاء میں سب سے کم شرح ہے ہماری خواتین کو کاروبار یا نوکری کرنے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

وسائل کی کمی:
تعلیم کا نہ ہونا غربت سے بھی جڑا ہے، ہمارے ملک کی مجموعی 23فیصد آبادی غریب طبقہ کہلاتی ہے جن میں 76لاکھ افراد یومیہ 1.9ڈالر (304پاکستانی روپے) آمدن کے ساتھ انتہائی غربت میں شمار ہوتے ہیں جنہیں باآسانی
خوراک تک میسر نہیں جبکہ یومیہ 1.3ڈالر (496پاکستانی روپے) آمدن والے متوسط غربت کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں جیسے تیسے دو وقت کی روٹی تو نصیب ہے مگر دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔جو لوگ غربت کی اس بھٹی میں جل رہے ہیں ان کے لیے تعلیم کی اہمیت کیا ہوتی کوئی خبر نہیں انہیں تو بس اپنی دو وقت کی روٹی کی فکر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں