سوچ بدلیں نتائج بدل جائیں گے

بچپن سے ہمیں ایک سوچ دی جاتی ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کریں اور پھر ایک مستقل ملازمت کسی سرکاری ادارے یا ملٹی نیشنل کمپنی میں تو ہم کامیاب ہیں۔ کامیابی کا مطلب ایک اچھی نوکری کے سواکچھ بھی نہیں۔ ہر طالب علم، علم کچھ نیا سیکھنے سمجھنے، دوسروں کے لئے کچھ اچھا کرنے، ملک و قوم کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ صرف اچھی نوکری پانے کے لئے حاصل کرتا ہے۔ لیکن ایک اچھی نوکری کے بعد بھی جب وہ خوشحال نہیں ہو پاتا تو پھر مزید سخت محنت کرتا ہے کبھی اوور ٹائم لگا کر اور کبھی کسی دوسری جگہ پارٹ ٹائم ایک اور نوکری کرکے۔ وہ سوچتا ہے کہ دن کے جتنے زیادہ گھنٹے کام کروں گا اتنا ہی زیادہ معاوضہ ملے گا۔اصل میں یہ سوچ صنعتی انقلاب جوکہ آج سے 250سال قبل آیاتھا کے زمانے میں پیدا ہوئی۔ جگہ جگہ صنعتیں لگائی گئیں۔ان صنعتوں کو رواں دواں رکھنے کے لئے ملازمین درکار تھے۔ لہذا اس سوچ کو سوچے سمجھنے منصوبے کے تحت پروان چڑھایا گیا اور پھر یہ سوچ نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔
اس سوچ کے نتیجہ میں دنیا کے 95فیصد سے بھی زیادہ لوگ مالی مشکلات کا شکار ہیں اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مالی مشکلات سے آزاد ہوں اور ہمارے حالات بہتر ہوں۔
ہمیں نوکری سے ہٹ کر وہ راستے اور دروازے کھولنے ہوں گے جو ہمیں خوشحالی کی جانب لے جائیں۔
یاد رہے حقیقی دولت و خوشحالی کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس زیادہ مال و دولت ہونے کے ساتھ ساتھ کافی زیادہ وقت ہوتا کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرسکیں۔
ایک بہت ہی اچھی اور سبق آموز کہانی برکھ ہیچز نے اپنی کتاب Copycat Marketing 101میں بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ایک درمیانی عمر کا منیجر اپنے بلز کی ادائیگی میں مشکلات کاشکار تھا۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی فنانشل ایکسپرٹ سے رائے لے گا۔ منیجر نے ایک بہت ہی نامور اور مشہور فنانشنل ایکسپرٹ سے وقت طے کیا جس کا دفتر پارک ایونیو کی Swanky Buildingمیں واقع تھا۔
منیجر فنانشنل ایکسپرٹ کے دفتر کے استقبالیہ کمرے میں داخل ہوتا ہے لیکن وہاں Receptionistکے بجائے اس کے استقبال کے لئے دو دروازے تھے۔ ایک پر لکھا تھا Employedاور دوسرے پر لکھا تھا Self Employed۔ منیجر چونکہ ملازم تھا اس لیے وہ ملازمت والے دروازے میں داخل ہوتا ہے جہاں مزید دو دروازے اس کا استقبال کررہے ہیں۔ ایک دروازے پر لکھا تھا چالیس ہزار ڈالرز سے کم اور دوسرے پرلکھا تھا چالیس ہزار ڈالرز سے زاہد۔ منیجر کی سالانہ آمدن چالیس ہزار ڈالر سے کم تھی اس لیے وہ چالیس ہزار ڈالرزسے کم والے دروازے میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں وہ آمنے سامنے دو دروازے پاتا ہے جو دروازہ منیجر کی بائیں طرف تھا س پر لکھا تھا سالانہ دو ہزار ڈالرز سے زاہد بچت اور جو دروازہ اس کے داہنی جانب تھا اس پر لکھا تھا سالانہ دو ہزار ڈالرز سے کم بچت۔ منیجر کی ساری بچت ہزار ڈالر تھی اس لیے وہ دائیں طرف جاتا ہے۔ جب وہ دروازے میں داخل ہوتا ہے تو اپنے آپ کو واپس پارک ایونیو میں پاتا ہے۔
اس کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ ایک ہی طریقے، راستے سے ایک ہی طرح کے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ مختلف نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے راستے طریقے بدلنا ہوں گے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ وہی کرتے رہیں گے جو آپ نے ہمیشہ کیا ہے تو آپ کووہی ملے گا جو آپ کو ہمیشہ ملتا ہے۔ اس کہانی کے منیجر کی طرح زیادہ ترلوگ اپنی مالی مشکلات سے نہیں نکل پاتے اور وہ اپنی ناختم ہونے والی مالی فرسٹریشن کا شکار رہتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کہانی کے منیجر کی طرح وہ بار بار وہی دروازے کھولتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے جس کے نتیجے میں وہ وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔ نتائج بدلنے کے لے انہیں مختلف دروازوں کو کھولنا ہوگا۔ انہیں ملازمت نہیں سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں