شخصیت اور جمہوریت،خلافتِ راشدہ کا نظام بہتر یا آج کی جمہوریت۔۔؟

انسانی نسل جہاں ایک طرف اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات ہے دوسری طرف اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کسی ایک اعلیٰ اور طاقتور ہستی کو اپنا مرکز اور مقتد بناکر رہے اور یہی فطری تقاضا ہے جو اس کو توحید باری تعالیٰ کی طرف رہبری کرتا اور تمام معبود ان باطلہ سے منحرف بناکراکیلے اللہ کی پرستش پر آمادہ کرتا ہے۔ شیطانی فریب کاریوں میں سب سے بڑی فریب کاری یہ تھی کہ انسان نے حکومت و سلطنت کے لیے قابلیت اور صفات حسنہ کی شرط کو فراموش کرکے وراثت اور نسب کے تعلق کو حکومت اور بادشاہی کے لیے بطور شرط لازم تسلیم کرلیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے شخصوں کو جو بادشاہت اور حکومت کے حق دار نہ تھے محض بادشاہ کی اولاد ہونے کے سبب بادشاہ بننے اور مستحق بادشاہت لوگوں کو ذلیل و خوار بنانے کا موقع ملنے لگا۔ نوع انسانی کی اس غلطی نے دنیا میں بڑی بڑی خرابیاں اور ہنگامہ آرائیاں برپا کیں اور بنی آدم کو اپنی اس غلطی کے بڑے بڑے خمیازے بھگتنے پڑے۔
قرآن کریم نے نازل اور آنحضرت ﷺ نے مبعوث ہوکر دنیا کی اس عالمگیر گمراہی اور نوع انسان کی اس عظیم الشان غلط روی کا علاج کیا اور جامع جمیع کمالات انسانیہ علیہ الصلوۃ والسلام نے خود حکومت کی فرماں روائی کرکے فرائض رسالت و نبوت کے علاوہ دنیوی بادشاہت و حکومت کا بھی بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور نوع انسان کو بتایا کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں ا ور اس کے اختیارات کی حدود کیا ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے اولین فیض یافتہ اور بہترین تربیت حاصل کردہ یعنی صحابہ کرام ؓ نے آپ کی تعلیم کے موافق بہترین شخص یعنی مستحق حکومت اور قابل فرماں روائی انسان کا انتخاب کیا اور عملی طور پرپہلی مرتبہ یہ شیطانی طلسم ٹوٹا کہ حکومت و فرماں روائی کے لیے وارثت قابل لحاظ ہے۔ حضر ت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد حضرت عمر ؓ کا انتخاب بھی جائز استحقاق اور اسی صحیح اصول پر ہوا، ان کے بعد حضرت عثمان کا انتخاب اگرچہ وراثت اور نسب کے تعلقات کے لحاظ کیے بغیر ہوا مگر مسلمانوں کے بعض طبقات اور بعض افراد کو اس انتخاب قدرے انقباض رہا اور خود حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی رعایت زیادہ مرعی رکھی۔ چنانچہ ان کا زمانہ فتن سے خالی نہ رہا۔ پس کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بحثیت رسول جس طرح 23سال تک اپنی زندگی کا نمونہ نوع انسان کی زندگیوں کو سدھارنے کے لیے پیش کیا اسی طرح 23ھ تک یعنی 23سال تک سلطنت وفرماں روائی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی کے 23سال نوع انسان کے لیے قابل اقتدار ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کی مدنی زندگی، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت، حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کے کل 23سال سلاطین عالم کے لیے قابل تقلید ہیں۔
خلافت راشدہ کے بعد انسانی کمزوری اور شیطانی فریب کاری نے پھر وراثت کے تعلقات کو حصول سلطنت کے لیے ضروری قرار دے دیا اور حکومت و سلطنت کی بجائے اس کے کہ مستحق اور قابل افراد کا حصہ ہوتی، مخصوص خاندانوں کاحق سمجھی جانے لگی اور لائق فرماں رواوں کے بعد ان کے نالائق بیٹے تخت حکومت پر جلوہ فرما نظر آنے لگے اور ان نالائقوں سے تخت سلطنت پاک کرنے کے لیے لوگوں کو بڑی بڑی محنتیں اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بالآخر ان مصیبتوں سے تنگ آکر لوگوں نے اس جمہوریت کا سہارا پکڑا جو فرانس و امریکہ وغیرہ کے ممالک میں آج کل نظر آتی ہے۔ حالانکہ جس طرح وراثتی شخصی سلطنتیں نوع انسان کے لیے مضر تھیں اسی طرح یہ جمہوریتیں بھی نوع انسان کے لیے مفید و بابرکت نہیں ہوسکتیں۔ فطرت انسانی کے عین موافق اور ہر طرح مفید و برکت وہی طرز حکومت ہے جس کا نمونہ سنہ ہجری کی ابتدائی چہارم صدی نے پیش کیا تھا اور وہ جمہوری و شخصی سلطنتوں کی ایک درمیانی حالت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں