طلباء کااحتجاج ہمارے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔؟

پاکستان کا تعلیمی نظام عام طورپر6درجات پر مشتمل ہے پرائمری جس میں ایک سے لیکر پانچ سال تک دوسرا میڈل جس میں چھ سال سے آٹھ سال تک، ہائی جس میں نویں اور دسویں کلاس تک، انٹرمیڈیٹ جس میں گیارہ سے بارہ سال تک جس کو ہائیر سیکنڈری اسکول کا سرٹیفکیٹ یا HSSCکہتے ہیں ہمارے آئین کا آرٹیکل 25/Aریاست کو اس بات پر پابند کرتا ہے کہ وہ 5سال سے 16سال تک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی معیار کی تعلیم دے۔ پاکستان میں انگریزی کا ناسو ر تیزی سے پھیل رہا ہے ایک اندازے کے مطابق 92ملین سے زیادہ پاکستان 49فیصد انگریزی زبان پر قابض ہیں پاکستان میں ہر سال 445,000یونیورسٹیز گریجویٹ اور اسی طرح 80ہزار کمپیوٹر سائنس گریجویٹس ان جگہوں سے نکلتے ہیں اس کے باوجود پاکستان میں شرح خواندگی اب بھی کم ہے۔

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اعلیٰ تعلیم نظام بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہوسکتا ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے تربیت یافتہ قوم کی ضرورت ہوتی ہے اور تربیت یافتہ قوم تعلیم ہی سے تیار ہوتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہمارے پیارے رسول ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘ افریقی انقلابی شخصیت نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ تعلیم ایک طاقتور ہتھیار ہے جس کے ذریعے آپ پوری دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے بڑا مسلہ جو درپش ہے وہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ ہمارے ملکی معاشی نظام میں امیر امیرسے امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر اسی طرح کسی ایک کلا س میں بیٹھے ہوئے دو طلباء میں بھی یہی فرق ہے جس کا تعلق اساتذرہ کی قابلیت اور ہمارے تعلیمی نظام دونوں سے ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نظام ہی نہیں ہے کہ اگر ایک طالبعلم ایک مضمون میں کمزور ہے تو چاہے تو یہ کہ اسے متبادل مضمون دیا جایا جس میں اس کی دلچسپی ہے تاکہ وہ اپنی اندر کی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے نہیں بلکہ اس کو زبردستی وہ مضمون دیا جاتا ہے جس میں نہ تو اس کی دلچسپی ہے اور نہ وہ پڑھنا چاہتا ہے جب آپ اس طرح کریں گے تو ان ادارے سے فارغ ہونے والے طلباء و طالبات ملک و قوم کی ترقی میں کیا کردار ادا کرسکیں گے؟

ہمارے ملک میں ہر دور حکومت میں تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارے تعلیمی نظام کے لیے ہر سال تعلیمی بجٹ ہے ہمارے قومی وسائل کا صرف 2سے 3فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم کی بجائے تعلیمی نظام کو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا گیا ہے امیر کے لیے الگ نظام اور غریب کے لیے الگ نظام ہمارے سرکاری اسکولوں میں طلباء و طالبات جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سہولیات کا فقدان ہے دنیا کے ہر ملک میں اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اساتذہ کو وہ مقام حاصل نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔

سب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا نظام نہایت ہی سست اور پست ہے جس کی وجہ سے غریب اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتے سندھ کے اندر تو یہ حال ہے کہ سرکاری اسکولوں میں وڈیروں نے اپنی بھینیس باندھی ہوئی ہیں جب ایک ٹی وی پروگرام نے یہ سب بے نقاب کیا تو دنیا
حیران ہوگئی کہ پاکستان کیسا معاشرہ ہے جس کا تعلیمی نظام یہ ہے ہمارے ہاں نصاب کی کتابیں لمبے
عرصے تک تبدیل ہی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے بچے نئی اور جدید معلومات سے محروم رہتے ہیں

پاکستان میں امتحانات کے حوالے سے طلباء کا احتجاج یہ ثابت کرتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں تعلیم کا نظام کہا کھڑا ہے ہم نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کو اہمیت نہیں دی جبکہ ہمارے پڑوس میں بھارت آج ہم سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گیا ہے پچھلے سال جب کورونا وائرس آیا تو اس وقت دنیا بھر کے تمام تعلیمی ادارے فوراً ہی آن لائن ہوگئے مگر پاکستان کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا آج دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں تعلیمی اداروں کے طلباء احتجاج نہیں کررہے کیونکہ ان کی کورونا کی وجہ سے ان کی تعلیم متاثر نہیں ہوئی تھی وہ گھر میں محفوظ بیٹھ کر آن لائن اپنی تعلیم حاصل کرتے رہے مگر پاکستان میں آج ایک سال کے بعد ایک صوبائی حکومت نے ایپ متعارف کروائی ہے جبکہ یہ کام پہلے دن سے ہی ہوجانا چاہیے تھا اور صوبائی سطح پہ نہیں بلکہ وفاقی سطح پہ ایک ایپ تیار کرلی جاتی جو آج تیار ہورہی ہے۔

ہمارے ملک میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ابھی تک انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں یا وہ بچے جن کے پاس سمارٹ فونز نہیں ہے اور وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے وہ تمام بچے اس وقت پریشان ہیں۔آج ہمارے بچے جو کچھ کررہے ہیں اور جس قسم کے احتجاجات میں کررہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو گراس روٹ لیول تک تربیت یافتہ نہیں بنایا اور نہ ہی ہمارے پاس ابھی تک ایسے ادارے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دی جائے۔ آج جس طرح بچے کررہے ہیں اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان بچوں نے کبھی اسکولز کا رخ کیا ہی نہیں کیونکہ ایک تعلیم یافتہ طبقہ اس طرح نہیں کرسکتا جس طرح ہم روز دیکھ رہے ہیں۔

(احسن ایاز کھتران)

اپنا تبصرہ بھیجیں