عثمانی فوج میں غیر مسلموں کو کیوں بھرتی کیا گیا۔؟

ؑعثمان کے بیٹے علاء الدین نے سب سے پہلے جو تدبیر اختیار کیں وہ سکے سے متعلق تھیں۔ عثمان نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے نام سے سکہ رائج نہیں کیا تھا اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لئے اپنے مربی کی وفات کا منتظر تھا۔عثمان کا بڑا بیٹا ارخان کی تخت نشینی کے تیسرے سال،وزیر نے سونے اور چاندی کے سکے ڈھلوانا شروع کردئیے، جن پر شاہی طغرا اور قرآن کی ایک آیت کندہ تھی۔ اس نے اخراجات کے متعلق قوانین وضع کئے مگر ان پر صرف ارخان ار اس کے جانشین کے عہد حکومت میں عمل درآمد ہوا۔ اس کے نافذ کئے ہوئے قواعد و ضوابط میں سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو حاصل ہے وہ ایک مستقل فوج کا قیام ہے۔ اس نے ایک پلٹن قائم کی جس کو روزانہ باقاعدہ طور پر ایک اقچہ دیا نافرمانیوں نے بہت جلد ارخان کو ان کے معدوم کردینے پر مجبور کردیا پھر فیصلہ کیا گیا کہ ایک نئی فون مرتب کی جائے، جو اس وجہ سے عام لوگوں کو بھرتی نہیں کی جائے گا، رعایا بالکل اجنبی ہوگی اور اس لئے بغاوت کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ ساتھ ہی سلطنت کے اندر ایک دوسری قوت کی پرورش بھی نہیں ہوسکے گی خلیل جندارلی نے تمام عیسائی بچوں کو گرفتار کرکے مسلمان کرلینے اور پھر انہیں سپاہی بنانے کی صلاح دی، خلیل نے یہ ان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہوگی کہ ان کو سچے مذہب میں داخل کیا جائے اس لیے کہ جناب رسالت ﷺ کے ارشاد کے مطابق تمام انسان پیدائش کے وقت مسلمان ہوتے ہیں۔ ان کا نہ کوئی خاندان ہوگا اور نہ آپس میں یہ رعایا کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہوگی اور اس لیے یہ سپاہی کامل طور پر سلاطین کے ہو کر رہیں گے۔ اس مشورے کو پسند کرلیا گیا محترم شیخ حاجی بختاشی درویشون کے بانی سلسلہ نے اس فوج کے حق میں دعا کی اور اس کو ینی چر ی کا نام دیا گیا۔
اس فوج کی ابتدائی ساخت میں اعتدال کو ملحوظ رکھا گیا شروع میں اس پلٹن میں صرف اسی ہزار سپاہی تھے لیکن ہر سال اس کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے ایک ہزار عیسائی بچوں کو گرفتار کیا جاتاتھا یہ فوج اسی طرح برابر بڑھتی رہی یہاں تک کہ ایک سال میں چالیس ہزار بچوں کو اس میں بھرتی کردیا گیا۔
فوج میں بھرتی کرنے کا یہ طریقہ جس نے آل عثمان کو عیسائی آبادی کے شجیع ترین حصے کو اخذ کرلینے اور عیسائیوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دیے بغیر اپنی فوجی طاقت کو المضاعف کرلینے کا موقعہ دیا یہ طریقہ شیخ بختاش کی ایجادنہ تھی بلکہ دراصل یہ طریقہ صدیوں سے چلا آرہا تھا اور اس کو سلطنت بائزنطہ کے یونانیوں نے ہر موقع پر جب کہ وہ فتح یاب ہوئے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے میں پوری کدوکاش سے کام لیا تھا بختاش نے اس میں عمومیت اور باقاعدگی پید اکردی۔ ورنہ بائز نطینی فوج کی منتخب پلٹنیں، وی و جلس (محافظین) دی اکسیکو یائٹس (غیر فانی) خاص طور پر مشہور ممتاز تھیں اور ان سب میں مسلمانوں کے بچوں کو نہایت کثرت کے ساتھ بھرتی کیا گیا تھا جو حملوں اور غارتگری کے دوران گرفتار کئے گئے تھے۔ یہ بچے کم عمری میں بائزنطہ لائے گئے تھے۔ ان کو باقاعدہ پبتسمہ دیا جاتا تھا اور ان کو دیندار بے سی لیوز کی وفادار رعایا بنایا جاتا تھا۔ بہادر اور نامور سیف الدین، امیر ہمدان کے مستقر حکومت، حلب کی تسخیر کے بعد 926ء میں شاہ نیکفورس فوقوس د س ہزار بچوں کو گرفتار کرکے لے گیا، جن کی قسمت میں سپاہی بننا اور آگے چل کر اپنے بھائیوں اور اپنے آباء کے خلاف جنگ کرنا لکھا تھا۔
سلطان محمد چہارم کے زمانے میں فوج میں بھرتی کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہ تھا۔ تمام یورپین مورخین نے اس طریقے کے خلاف نہایت سخت رائیں قائم کی ہیں اور بہ لحاظ اخلاق ا س فعل کو شد دمد کے ساتھ مردود قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں