غیر معیاری تعلیم اور نظام تعلیم ذمے دار کون۔۔؟

تعلیم ہر معاشرے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار اداکرتی ہے اسی لیے ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت کو بہت پہلے تسلیم کرکے اس حوالے سے بنیادی اور موثر اقدامات کرچکے ہیں اور اسی لیے آج ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک، بالخصوص پاکستان ا س حقیقت کو جان کر بھی موثر اقدامات کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا جس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جیسے اجتماعی جدوجہد لگن، جوش و جذبہ اور تعلیم کا ملکی ترجیحات میں شامل نہ ہونا۔
Trends in International Mathematics and science Stud
ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو 1995ء سے دنیا کے مختلف ممالک کے تعلیمی معیارات پرکھتا آرہا ہے یہ چوتھی اور آٹھویں جماعت کے بچوں سے سائنس اورریاضی جیسے مضامین کے امتحانات لے کر مختلف ممالک کا معیار تعلیم جانچتا ہے۔ یہ امتحان ہر چار سال بعد لیا جاتا ہے اور 2019ء میں 64ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی پہلی بار اس پروگرام میں حصہ لیا، لیکن یہاں سے صرف جماعت چہارم کے بچوں نے امتحان دیااور 63ویں پوزیشن حاصل کی۔ہمارا خیال تھاکہ شاید اس نتیجے کو دیکھتے ہوئے حکمران الگے ہی دن ایک ہنگامی اجلاس بلاکر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کردیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ویسے یقینا یہ نتائج ہم سب کے لئے پریشان کن تو ضرور ہیں لیکن انوکھے نہیں بہر حال سوال یہ ہے اس مسلسل بگڑتے ہوئے تعلیمی معیار کا ذمے دار آخر کون؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے ’اساتذہ‘ اساتذہ جن کا اصل کام بچوں کو پڑھانا ہے لیکن وہ تو کبھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلارہے ہوتے ہیں تو کبھی الیکشن مردم شماری میں ڈیوٹیز سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں بچوں کو پڑھانے کی ذمے داری تو سونپی جاتی ہے لیکن تعلیمی حوالے سے پالیسی سازی میں ان کی رائے شامل نہیں کی جاتی۔ توکیا واقعی اساتذہ مجبو ر ہیں؟ اساتذرہ مجبور تو ضرور ہیں لیکن کمزور نہیں کہ جب پروموشن تن خواہوں کی بات ہو تب بھی تو یہ لوگ یک و جان و یک زبان ہوکر سڑکوں پر نکلتے اپنا حق چھین کر ہی دم لیتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ اساتذہ معیار تعلیم کی بہتری کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوں کہ شاید تعلیم ان کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اسی طرح اگر والدین کی بات کی جائے تو جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے وسائل نہیں وہ غریب طبقہ معیاری تعلیم کیسے افورڈ کرسکتا ہے یا اس حوالے سے آواز کیوں کر اٹھائے گا۔ نتیجتاً ان کے بچے بھی محنت مزدوری پر لگ جاتے ہیں جس کے بعد اکثریت یا تو خواندہ رہ جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ مذل، میٹرک کرلیتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد کسی ماہر تعلیم کو وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا ہو۔ جب اس ضمن میں ڈائریکٹر لیول کے لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ مجبور یوں کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں ان کی کئی مجبوریوں میں سے ایک مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ زیر سیکرٹری تعلیم کی نظر خاص ہی کی وجہ سے اس عہدے سے فائز ہوتے ہیں تو وہ ان کے خلاف کیسے بات کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب اگر کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی بات نہ مانیں، یعنی ان کے کہنے پر کسی استاد کا تبادلہ نہ کریں تو وہ وزیر تعلیم سے شکایت کرکے ڈائریکٹر کا تبادلہ کروا دیتا ہے ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ تحقیق کے سلسلے میں ہمارا ایک سرکاری اسکول جانا ہوا۔ وہاں پہنچنے تو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ہر طرف صفائی ستھرائی ہورہی تھی پوچھنے پر معلوم ہو اکہ اس روز وہاں انسپیکشن کے لیے ٹیم آرہی تھی۔ ہم بھی تماشائی بن کر بیٹھ گئے۔ افسران آئے مختلف کلاسز کا دورہ کیا ایک دو بچوں سے کچھ سوالات پوچھے او ر دفتر میں جاکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر رجسٹرڈ وغیرہ دیکھے اتنے میں کسی نے آواز دی کہ کھانا تیار ہے، پھر سب نے سیر ہوکر کھاناکھایا اور یو انسپیکشن اختتام پذیر ہوئی۔ بہرحال یہ افسران بھی مجبور ہی ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی دن اپنے ضلعے کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس اور تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر آفس کا ایک چکر لگا کر دیکھ لیجئے آپ پر بھی ان کی مجبوری اور بے بسی آشکار ہوجائے گی۔
بلاشبہ معیار تعلیم بہتر کرنا انہی کے ذمے داری ہے لیکن جب اس حوالے سے ان سے سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہم روزانہ اسکول نہیں جاسکتے اگر سرکاری اسکولز کی حالت ابتر ہے تو اس کے ذمے دار پرنسپلز ہیں۔ ان افسران کا خیال ہے کہ چوں کہ اسکولز پرنسپلرز کی زیر نگرانی چلتے ہیں۔ اس لیے تمام تر ذمے داری انہی کی ہے۔
ایک لحاظ سے ان کی بات بھی غلط نہیں کہ پرنسپل اسکول کا سربراہ ہوتا ہے وہ چاہے تو نظم و ضبط برقرار کھنے سے لے کر درس و تدریس تک تمام تر معاملات بخیرو خوبی انجام پاسکتے ہیں لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے جب پرنسپل کی تعیناتی میرٹ پر ہوئی ہو اور وہ واقعتاکام کرنا چاہے لیکن عمومی حقائق اس کے برعکس ہیں کہ اکثر لوگ میرٹ پر نہیں سنیاریٹی کبھی افسر شاہی نظام کے تحت اوپر آتے ہیں ایک پرنسپل نے ہمیں بتایا کہ میں کیمسٹری کا استاد ہوں۔ ساری زندگی معلمی کی اور اب یہاں زبردستی پرنسپل بناکر بٹھا دیا گیا اور مجھ سے یہ عہدہ سنبھالا نہیں جارہا۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم صرف خانہ پری کررہے ہیں ہمارے یہاں اہلیت قابلیت جانچ کر ذمے داریاں عہدے تفویض نہیں کیے جاتے پر کیا کریں یہی ہمارا نظام تعلیم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں