لاہور آرمی میوزیم میں کیا خاص بات ہے ۔

دنیا کے مشہور ترین میوزیم کا تذکرہ کیا جائے تو ترکی کا توپ خاپی میوزیم۔ لندن کا مادم تساو او ر قاہرہ میں میوزیم آف اسلامک آرٹ کا نام ذہن میں آتا ہے مادام تساو کو مشہور شخصیات کے مومی مجسموں کے حوالے سے خصوصی شہرت حاصل ہے ان مجسموں کو دیکھ کر اصل شخصیت کا گمان ہوتا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے کسی میوزمیم کا دورہ کسی تاریخ کتاب کو پڑھنے کے مترادف ہے۔ اسی لئے پاکستان کی تاریخ کی موضوع بنا کر لاہور میں آرمی میوزیم کی بنیاد رکھی گئی جو ایک قابل دید میوزیم ہے اور توقع ہے کہ دنیا کے مشہور میوزیم میں جلد ہی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگا۔ آرمی میوزیم کا افتتاح 13اگست 2017ء کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا تھا اور ستمبر 2017ء میں یہ میوزیم عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ آرمی میوزیم میں لاہور تحریک پاکستان کی تاریخ اور ورثے کو پیش کیا گیا، جس کا عنوان قوم کی پیدائش نو رکھا گیا جب کہ قائد مسلح افواج اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت جنگوں کی تاریخ کے شعبے قائم کیے گئے ہیں میوزیم میں شہداء کارنر، نشان حیدر گیلری، سیاچن میں زندگی، کشمیر کارنر سمیت اقوام متحدہ میں پاکستان کاکردار،قوم سازی کی کوششوں اور اقلیتوں کی قربانیوں کا بھی احاطہ کیا گیا۔ آرمی میوزیم لاہور نے تاریخ پاکستان اور تحریک پاکستان کی ورثہ کی تصویر کشی کی جس کا عنوان بحثیت قوم قائد اعظم، مسلح افواج اور پاکستان کی جنگ کی تاریخ جس میں دہشت گردی کے خلا ف جنگ کی تاریخ جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شامل ہے خاص طور پر اے پی ایس کے واقعہ سے متعلق ایک مکمل سیکشن شامل ہے،میوزیم کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ میوزیم کے بیرونی علاقے میں ٹینک ہیلی کاپٹر اور دیگر ہوائی جہاز موجود ہیں۔ مرکزی دروازے میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے تمام سپہ سالاروں کے مجسمے موجود ہیں۔ جو یقینا قابل دید ہیں لیکن پرویز مشرف کے مجسمے میں ان کی شاندار شخصیت کا حصہ ہے ایک شہداء گیلری ہے جس میں 1947ء سے لے کرسن 2016ء تک تمام شہدا کے نام درج ہیں۔میوزیم میں جنگ کے دوران پکڑے گئے ٹینکوں کو دکھایا گیاگراونڈ میں موجود چار ٹینکوں کا تعلق ہندوستان کی مسلح افواج سے ہے۔ میوزیم میں دو برطانوی جرنیلوں، سرفرینک میسری اور سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی کے مجسمے بھی شامل ہیں جو 1947سے 1951تک پاک فوج کے سربراہ بھی رہے ہیں لاہور آرمی میوزیم میں ان رہنماوں کے بارے میں تصاویر حقائق اور اعدادوشمار بھی دکھائے گئے جنہوں نے تحریک پاکستان کی سربراہی کی۔ یہاں ایک علیحدہ گیلری ہے جس میں 1965اور 1971میں لڑی جانے والی دو بڑی جنگوں کو دکھایا گیا ہے۔
دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے شہداء بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں اور دہشت گردوں سے لڑنے والے طلباء اور اساتذہ کی تصاویر بھی موجود ہے نشان حیدر کے حاصل کرنے والے ہیرو پر مشتمل ایک علیحدہ گیلری موجود ہے میوزیم کی خاص بات یہاں موجود مجسمے ہیں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کیا یہ واقعی مجسمے ہیں یا کوئی پاکستان کی تاریخ کا کوئی ہیرو ہمارے درمیان موجود ہے۔ میوزیم کا ایک ایک حصہ شاہکار ہے اور اپنی طرز کا بہترین نمونہ ہے۔ میوزیم میں اگست 1947میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے کارنر پربھی حقیقت کا گماں ہوتا ہے جہاں قوم کے بانی قائد اعظم کا ایک بہت بڑ ا مجسمہ خطاب، کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ لارڈ ماونٹ بیٹن اور فاطمہ جناح بھی موجو دہیں۔ غرض یہ کہ میوزیم کا ایک ایک حصہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ وقت صرف ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں