مصنوعی ذہانت اور ہماری صنعتیں۔

مصنوعی ذہانت صرف فلموں کے لیے نہیں ہے۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے اور زیادہ تر ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ جب آپ کال سینٹر پر کا ل کرتے ہیں اور خود کار چلنے والی آواز سنتے ہیں تو یہ بھی مصنوعی ذہانت ہے۔ ڈرائیور لیس کاریں، چہرے کی شناخت کرنے والا سافٹ وئیر، مختلف سافٹ وئیرز اور پروگرامز کے الگورتھم بھی اسی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں ہماری روزمرہ زندگی، کاروبار اور معیشت کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک دنیا بھر میں 70فیصد کمپنیاں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کریں گی، اور اس کا اثر ہم سب پرپڑے گا۔ متوقع طور پر اگلی دہائی میں مصنوعی ذہانت کو اپنایا جائے گا۔اگلے دس برسوں میں مذکورہ ٹیکنالوجی کو اپنانے سے 280ملین ملازمتوں تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ جس سے عالمی معیشت میں 13کھرب ڈالر اضافے کا امکان ہے۔ تو پھر کیاوجہ ہے کہ دنیا بھر کی کمپنیاں اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کے لئے میدان میں کود نہیں رہیں؟
مصنوعی ذہانت کو اپنانے میں کچھ اہم رکاوٹیں ہیں پچھلے صنعتی انقلاب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی نے کم ہنر کارکنوں کو بے روزگار کرنے میں کردار ادا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کی جگہ بغیر رکے پھرتی اور برق رفتاری سے کام کرنے والی ویو ہیکل مشینوں نے لے لی۔ لیکن لوگوں کی بے روزگاری سے تو کاروباری افراد کتراتے ہیں۔ کیونکہ صرف اس ٹیکنالوجی پر مختلف تجربات، مشاہدات اور تحقیق میں اربوں روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔ اور مطلوبہ نتائج ملنے کے چانس بھی تسلی بخش نہیں۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی کمپنیاں فی الحال اس ٹیکنالوجی پر بھاری رقم خرچ نہیں کررہی ہیں۔ خوش قسمتی سے گوگل جیسی کمپنیوں نے اے آئی ٹیکنالوجی کو بطور سروس متعارف کروانا شروع کردیا ہے۔ گوگل 2011ء مصنوعی ذہانت کے میدان میں ترقی کررہا ہے اس کا مشن ہر ایک کو اے آئی کے فوائد سے آگاہ کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں