مطالعہ کرنے کا بہترین طریقہ چند اہم ہدایات۔

٭کتاب کا سرسری ساجائزہ لے لیں۔
٭کتاب کے نفس مضمون پر غور کریں۔
٭فہرست عنوانات کو غور سے پڑھیں۔
٭کتاب پر کسی معروف شخص کا تبصرہ یا رائے شامل کتاب ہو تو اسے بغور پڑھ لیں
٭کسی بھی سبق کا آغاز اور اختتام قابل توجہ ہوتا ہے شروع یا آخر میں ایک دوجملے کلیدی ہوتے ہیں انہیں Underlineکرلیں۔
٭کتاب کا مطالعہ کرتے وقت نوٹس ضرور لیتے جائیں جو مختصر سے Points,Hintsہوں اس سے ایک خاکہ تیار ہوجائے گا۔ انہیں بعد میں ایک تسلسل سے لکھ لیں۔
٭اہم نکات کوہائی لائٹ کرلیں تاکہ نظر ثانی کے وقت یا سبق کو دہراتے وقت ان سے مدد لی جاسکے۔
٭جو یاد ہوگیا ہو اسے 24گھنٹوں کے بعد دہرا ضرور لیا کریں۔
٭ہر باب کا خلاصہ چند سطروں میں نوٹ کرلیں اس سے بعد ازاں پورے باب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
٭آپ نے جو کچھ گزشتہ روز پڑھا تھا اسے اگلے روز پہلے دہرالیں پھر آگے چلیں۔
٭مطالعہ خاموشی سے کریں اونچی آواز سے پڑھنے میں رفتار کم ہوجاتی ہے ایسا صرف رٹا لگا تے وقت کیا جاتا ہے ۔
٭مطالعہ کا بہترین وقت رات سونے سے چند گھنٹے قبل اور صبح سویرے جاگ کر پڑھنے کا وقت ہوتا ہے۔
٭جزئیات اور تفصیلات کو نظر انداز نہ کریں اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی کسی موضوع کا مغز نظر انداز ہوجاتا ہے۔
٭کسی ایک موضوع پر زیادہ لوگوں کی رائے تک پہنچیں عام طور پر ہر کتاب کے آخر میں کچھ کتابوں کی فہرست (کتابیات) دی ہوئی ہوتی ہیں۔ کوشش کیجیے کہ ان میں سے بھی کچھ کتابیں آپ کے زیر مطالعہ آجائیں۔
٭اگر آپ کسی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں تو انٹرنیٹ کا استعمال آپ کو مختلف مضامین میں مفید مطلب مواد فراہم کرسکتا ہے دورِ حاضر کی اس جدید تکنیک سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔
٭پڑھائی کے درران حسب ضرورت وقفے میں چائے کے استعمال کے علاوہ صرف پانی کے دو گھونٹ بھی مختصر وقفوں میں بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے آپ تازہ دم رہتے ہیں آپ کو شاہد اس بات کا علم ہوگا کہ انسانی دماغ 85فیصد سے زیادہ پانی ہے۔
٭صرف کامیابی یا اوسط کامیابی آپ کا گوہر مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیشہ اپنی نظر ٹاپ پر رکھیں اور پہلی تین پوزیشنوں سے کم پر مطمعن نہ ہوں۔
٭کہتے ہیں اچھا لکھنے کے لیے اور تحریر میں خوبصورت انداز بیان کے لئے اچھا اور زیادہ پڑھنا لازمی ہے۔ پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات نصابی کتب کے علاوہ عام کتب مطالعہ کو بھی پوری پوری اہمیت دیتے ہیں۔
پروفیسر اشفاق علی خان ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج، کیمبل پور (موجودہ اٹک) کے پرنسپل تھے۔ ان کا اپنا سبجیکٹ انگریزی تھا۔ ریل کے ایک سفر کے دوران ان کے ایک دوست اپنے بیٹے ک ہمراہ ان سے ملے اور بتایا کہ ان کا برخوردارایم اے کرچکا ہے اور سول سروس کے مقابلے کے امتحان کی تیار کررہا ہے۔مگر اس کی انگریزی کمزور ہے۔ اس دوست نے پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ وہ ان کے بیٹے کو انگریزی تحریر بہتر بنانے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ پروفیسر صاحب نے اس نوجوان سے کہا کہ وہ اتوار کے روز راولپنڈی صدر میں سیکنڈ ہینڈ بکس کے سٹالوں پر چلا جایا کرے اور کسی خاص مصنف کو سامنے رکھے بغیر چند ناول لے آیا کرے۔ اس عمل کو کچھ عرصہ جاری رکھنے اور ان ناولوں کے مطالعہ سے اس کی انگریزی تحریر حریت انگیز حد تک بہتر ہوجائے گی۔ یہ سفر تمام ہوا تو دونوں دوست اپنی اپنی منزل کی طرف چلے گئے۔ اس نوجوان نے پروفیسر صاحب کا مشورہ یاد رکھا۔ سال دو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا تو اس نوجوان کی اچانک ملاقات پروفیسر اشفاق علی خان سے ہوگئی۔ نوجوان نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے ان کے مشورے پر عمل کیا تھا جس سے نہ صرف اس کی انگریزی تحریربہت بہتر ہوگئی تھی بلکہ اس نے سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
خود پروفیسر اشفاق علی خان مرحوم کا روز کا معمول یہ تھا کہ گھر کے ملازم کو ہدایت کررکھی تھی کہ صبح سے شام تک جو سودا سلف گھر میں آتا ہے اس کے لیے استعمال ہونے والے چھوٹے چھوٹے کاغذ بھی سنبھال کر رکھ دیا کرے کیونکہ وہ رات کو ان کو بھی سونے سے پہلے کھنگالتے تھے۔ مبادا ان میں سے کوئی خوبصورت لفظ کوئی جملہ کوئی سطر ایسی مل جائے جو مستقبل میں کچھ لکھتے وقت ان کے کام آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں