ملک شاہ سلجوقی ( 465تا 485) کون تھا ۔۔؟

سلطان الپ ارسلان ترکستان کے بعض غیر مفتوحہ علاقے کی تسخیر میں مصروف تھا کہ سن 465ہجری،1072عیسوی میں ایک باغی امیر کے ہاتھوں سرِ دربار زخمی ہوکر انتقال کرگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ جلال الدولہ کے لقب سے اس کا جانشین ہوا۔ اس وقت اس کی عمر صرف ستر ہ سال کی تھی۔ شاہی خاندان کے کئی افراد نے جو سلطنت کے مختلف حصوں پر حکمران تھے، اسے بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر نظام الملک نے اپنی تدبیر اور ہمت سے سب مخالفوں کو نیچا دکھایا اور ملک شاہ بلا شرکت غیرے سلطان قرار پایا۔ حرمین شریفین، بیت المقدس، بغداد، شام اور ماوراء النہر میں اس کے نام سے خطبہ پڑھا گیا اور مملکت میں ہر طرف اس کے نام کا سکہ جاری ہوگیا۔ سلطان نے نظام الملک کو اس کی خدمت کے صلہ میں ”اتابیگ“ کا خطاب دیا۔
ملک شاہ کا عہد حکومت سلجوقی دور کا سب سے درخشاں زمانہ ہے۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئی۔ حدودِ چین سے لے کر اقصائے شام تک اور بحیرہ خزر سے لے کر عدن تک تما م ممالک اسی کے زیر نگین تھے، قیصر روم بھی اسی کا باجگزار تھا۔ سلطنت کا مالی انتظام نظام االملک کی اولاد کے سپرد تھا۔ فوج میں زیادہ تر ترک تھے اور مختلف صوبوں کی حکومت پر سلطان کے رشتہ داریا معتبر غلام مقرر تھے۔ محکمہ عدالت قاضیوں کے ہاتھ میں تھا۔
سلطان نے اپنی وسیع سلطنت کا کئی بار دورہ کیا اور ایک بار حج یت اللہ شریف سے بھی مشرف ہوا۔ اس نے راستہ میں کئی حاجیوں کی آسائش کے لیے تالاب اور حوض اور ان کے قیام کے لیے سرائیں بنوائیں اور امیر مکہ کی طرف سے حاجیوں پر جو ٹیکس لگائے جاتے تھے انہیں موقوف کردیا۔ سلطان کئی بار بغداد بھی گیا اور وہاں خلیفہ مقتدری سے ملاقات کی، سلطان کو محل اور قلعے بنانے کا بڑا شوق تھا۔ اس نے اصفہان کو خاص طور پر عالی شان عمارات اور خوشنما باغات سے آراستہ کیا۔ بڑے بڑے شہروں کے گرد فصلیں بنوائیں اور مسمار شدہ قلعوں کی مرمت کرائی۔ملک شاہ نے سن 485ہجری، سن 1092عیسوی میں چند دن کی علالت کے بعد 38سال کی عمر میں وفات پائی اور اصفہان کے مدرسے میں مدفون ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں