موازنہ اور مقابلہ کی لاحاصل جنگ۔

یہ ایسے دھوکے ہیں جن میں ہر شخص انجانے میں مبتلا ہوہی جاتا ہے۔
دو بڑے دھوکے:
موازنہ اور مقابلہ دو ایسے دھوکے ہیں جن میں ہرشخص کہیں نہ کہیں جانے انجانے میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے اور مصیبت یہ ہے کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ دراصل ہمارے ذہن کو ابتداء ہی سے ایسی تربیت ملی ہوتی ہے کہ ہم غیر محسوس طریقے سے ان بلاوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اس ریس میں جیت گئے تو ہم کامیاب انسان شمار ہوں گے لیکن منزل پر پہنچ کر بھی ہمیں پشیمانی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
موازنہ“ کا مطلب ہے اپنے آپ کو اور اپنی حاصل شدہ نعمتوں کو ترازوں کے ایک پلڑے میں رکھنا اور دوسرے پلڑے میں کسی اور شخص کی ذات اور اس کی نعمتوں کو رکھ کر تولنا۔ اور اس بات پر کڑھتے رہنا کہ یہ شخص مجھ سے زیادہ اہمیت کیوں رکھتا ہے۔ اس کے پاس تو فلاں فلاں چیز یں ہیں میرے پاس کیوں نہیں ہیں؟ یہ انسان پر نفس کا پہلا حملہ ہوتا ہے وہ جب اس کی زد میں آجاتا ہے تو اس کے بعد اگلا راونڈ شروع ہوجاتا ہے جس کو مقابلہ کہا جاتا ہے۔ مقابلے کا مطلب ہے خود کو کسی بھی انسان کی سطح پر لاکر اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ نفس کا یہ وار اس قدر مہلک ہوتا ہے کہ مقابلے میں کامیاب ہونے کے لیے انسان خود کو نفسیاتی مریض بنا لیتا ہے اور زندگی کے سارے اہم کام نظر انداز کرکے ایک ایسی ریس کا حصہ بن جاتا ہے جس کا کوئی حاصل نہیں ہوتا۔
موازنہ کیوں کیا جاتا ہے؟
بظاہر ہم دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت خود سے زیادہ ہم دوسروں کے لیے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ دیکھیں تو معاشرے میں شو آف کلچر پہلے سے بڑھ گیا ہے اور فیس بک، انسٹاگرام،ٹویٹر کی برکت سے تو اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب انسان کے معیار زندگی کا اندازہ اس کی پوسٹوں سے لگایا جاتا ہے۔ آپ اگر سوشل میڈیا صارف ہیں تو اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آپ کے دوستوں میں سے سنجیدہ مواد اب لوڈ کرنے والے افراد کی تعداد انگلیوں پرگننے کے برابر ہے، جبکہ ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو صرف اور صرف دکھاوے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے۔ ظاہر بات ہے جب ایک انسان ڈیڈھ لاکھ کا موبائل خرید کر اس کی ان باکسنگ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے گا تو نہ معلوم کتنے لوگوں کے دلوں میں حسرت کے بیج بوئے گا۔ یہاں سے موازنہ کاکھیل شروع ہوجاتا ہے۔
شوف آف کے کلچر سے ایک نئے ٹرینڈ نے جنم لیا اور یہ کہ کامیابی اور خوشی وہی ہے جسے دنیا مانے۔چنانچہ ہم اس دھوکے میں بھی پھنس گئے اور ہم نے اپنی زندگی کی ترجیحات وہی متعین کیں جو دنیا کو پسند ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ ہم خود سے دور ہونا شروع ہوگئے۔ زندگی ہماری اپنی ہے۔ اختیار ہمارے پاس ہے جذبات و احساسات ہمارے اپنے ہیں لیکن ہم جی دنیا کے لیے رہے ہیں۔
موازنہ مقابلے کے نقصانات؟
ہم اپنی انا کی خاطر جس لا حاصل دوڑ کے کھلاڑی بن جاتے ہیں وہ ہماری حقیقی زندگی کو کس قدر متاثر کرتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔
1۔ حقیقی لطف سے محرومی:
جب ہم کسی کے ساتھ اپنا موازنہ کرکے مقابلے میں لگ جاتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو ہم سے چھن جاتی ہے وہ ہے زندگی کا حقیقی لطف و سرور۔ ہمارے پاس کھانے پینے، سہولیات، تازہ ہوا موسم اور رشتوں کی مٹھاس کی صورت میں اللہ کی بے شمار نعمتیں ہوتی ہیں لیکن ہم ان سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔
2۔ ترجیحات کا بدلاو:
اس مرض میں مبتلا انسان اپنی زندگی کی اہم ترجیحات کا تعین نہیں کرسکتا۔ اگر اس نے پہلے سے کچھ متعین کی بھی ہیں تو وہ سب اس غلط عادت کی نذر ہوجاتی ہیں اور نتیجے میں اس کے پاس خسارہ ہی ہوتا ہے۔
3۔ ناشکرا پن:
موازنے کی دوڑ میں بھاگنے والا درحقیقت ناشکرے پن کا اظہار کررہا ہوتا ہے۔ وہ اس چیز کو حاصل کرنا تو چاہتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے لیکن جو اس کو حاصل ہے اس پر شکر کرنا بھو ل جاتا ہے اور ناشکرے انسان رب کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔
4۔ بے سکونی:
ایسا شخص اگر اس خود ساختہ منزل کو پا بھی لے پھربھی اس کو سکون نہیں ملتا۔ کیونکہ اس ساری تک ودود میں خود غرضی شامل تھی۔ وہ ایک ایسے ہدف کی پالیتا ہے جس کا زندگی کے مقصد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ چیز اس کو پچھتاوے میں مبتلا کردیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں