نظام الملک ُطوسی کون تھا کیا کیا خدمات ہیں۔؟

الپ ارسلان اور اس کے جانشین کے عہد میں سلجوقی سلطنت کا حسنِ انتظام بہت حد تک ان کے لائق اور مدبر وزیرنظام الملک طوسی کار ہین منت رہا۔نظام الملک کااصل نام ابوعلی حسن بن علی تھا اور جائے پیدائش طوس تھا اس نے تمام مروجہ علوم کی باقاعدہ تحصیل کی اور دینی علوم میں خاص طور پر درک حاصل کیا۔ اس نے ابتداء میں حکومت کے دفتر انشاء کی ملازمت اختیار کی اور اپنی لیاقت کی بدولت یہاں تک ترقی کی کہ سلطان الپ ارسلان نے اسے اپنا وزیر مقرر کرکے اسے نظام الملک کے خطاب سے سرفراز کیا۔
نظام الملک انتظامی قابلیت، عدل و انصاف، فیاضی، معارف پروری اور پرہیز گاری میں بے مثل تھا اور اپنے فرائض منصبی کو پوری تندہی اور دیانت داری سے سرانجام دیتا تھا۔ سلطان کو اس کی لیاقت او ر وفاداری پر پورا پورا اعتماد تھا اور سلطنت کا تمام کاروبار اس کے سپرد کر رکھا تھا۔
نظام الملک نے اپنی عمر کے آخری ایام میں سلطان الپ ارسلان کے جانشین سلطان ملک شاہ کی فرمائش پر اصول سیاست پر ایک کتاب ”سیر الملوک“ کے عنوان سے لکھی جسے عام طور پر سیاست نامہ کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے جس میں مصنف نے بادشاہ کے حقوق و فرائض سے بحث کی ہے اور تاریخی واقعات کو مثالاً بیان کرکے اصول سیاست کو توضیح کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے سلطنت کے مختلف محکموں اور شعبوں کی تفصیل دی ہے جس سے اس زمانے کے طرز حکومت پر روشنی پڑتی ہے۔

مدرسہ نظامیہ ۹۵۴،۷۶۰۱:
نظام الملک خود بڑا عالم و فاضل تھا اور علماء کی قدرو منزلت کرتا تھا۔ اس نے علوم و فنون کی ترویج کے لیے اپنے عہد وزارت میں ایک دارلعلوم اعلیٰ پیمانے پرقائم کیا۔
اس کے لیے ایک عالی شان عمارت تیار کرائی اور مصارف کے لیے ایک کثیر رقم سالانہ مقرر کی اور تعلیم و تدریس کے لیے چوٹی کے علماء مقرر کیے۔ مدرسہ نظامیہ تقریباً چار سو برس تک علم و حکمت کی روشنی پھیلاتا رہا اس مدت میں سینکڑوں علماء مثلاً ابو اسحاق شیرازی، امام غزالی اور خطیب تبریزی نے مسند درس کو زینت بخشی اور ان کے حلقہ درس سے ہزاروں طلباء مثلاً شیخ سعدی، شیرازی وغیرہ علم و فضلیت کی دستار پہن کر نکلے۔ نظامیہ بغداد کے علاوہ نظام الملک نے نیشا پور، اصفہان، مرو، خوزستان، موصل، آمُل، بصرہ، ہرات، بلخ اور طُوس میں بھی مدرسے قائم کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں