ٓآئیے اقوامِ عالم کی معاشی ترقی کا راز جانتے ہیں مغرب باقی دنیا سے آگے کیوں ہے۔۔؟

ہم ترقی میں دوسرے ممالک سے کیوں پیچھے ہیں ایسا کیوں ہے کہ دنیا جو کا م 10سال پہلے کرلیتی ہے ہمارے ہاں وہ کام کسی عجوبے سے کم دکھائی نہیں دیتا مثلاً کاروباری فروغ کے حوالے سے 73ممالک کی فہرست میں ہم سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ انڈیا (27واں نمبر) سعودی عرب (30واں نمبر) یونان (32واں نمبر) مصر (52واں نمبر) سلوواکیہ (39واں نمبر) ارجنٹائن (42واں نمبر) اومان (57واں نمبر) سری لنکا (61واں نمبر) کینیا (63واں نمبر) میانمار (69واں نمبر) بھی ہم سے آگے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں افراد کی انفرادی ترقی دیگر ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی وسائل کی ترقی پرا ٹھنے والے اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے وہیں آج ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو 1979ء میں ایک نوبیل انعام کے بعد گزشتہ 40سال میں تحقیق کے شعبے میں ایک بھی بڑا انعام نہیں مل سکا۔ پاکستان میں مجموعی آئی کیو 84انڈیا میں 83ہے لیکن انڈیا کم آئی کیو کے باوجود دس نوبیل انعام جیت چکا ہے اور ہم ملالہ یوسف زئی والا نوبیل انعام ہی لے سکے ہیں۔
پاکستان کے 10معروف ترین ناموں میں اس وقت عمران خان، عبدالستار ایدھی، ملالہ یوسف زئی، بے نظیر بھٹو، وسیم اکرم، ڈاکٹر عبدالقدید خان، نصرف فتح علی خان، نور جہاں، شاہد آٖفریدی ہیں۔ ہماری فہرست میں تعلیم، صحت، تحقیق، سائنس کی کوئی شخصیت شامل ہے یا نہیں؟اگر ہیں تو کتنی کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ برس کن لوگوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی یا ایسے کسی شعبے میں کون کون سے صدارتی تمغے دئیے گئے تھے؟ یہ لوگ ہمارے ہاں پہلی صفوں میں کیوں نہیں آسکتے؟ کا م کرنے کے باوجود بھی آگے نہیں آتے اور جو کام نہیں کررہے ان کے لئے تو ویسے ہی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے یہاں کم ہی لوگ ترقی کے زینے چڑھ پاتے ہیں۔ وجہ؟ مواقعوں کی کمی یا صلاحیت کا فقدان وسائل نہیں یا ہمت؟
کیا ہم ذہنی صلاحیت میں دوسرے ممالک سے پیچھے ہیں؟ اس کا جواب بھی کسی حد تک نفی میں ہے کیونکہ ہم سے کم ذہنی صلاحیت کے حامل ملک ہم سے کہیں آگے ہیں جیسا کہ انڈیا کا مجموعی آئی کیو لیول 83اور ہمارا 84ہے لیکن انڈیا کئی شعبوں میں ہم سے بہت آگے ہے۔اسی مراکش، بنگلہ دیش، مصرف اور جنوبی افریقہ ہم سے کم یا برابر آئی کیوں کے باوجود آگے نکل گئے ہیں۔
اب اعلیٰ تحقیق کی اشاعت میں امریکہ سب سے آگے ہے لیکن چین بھی اس افق پر تیزی سے ابھرنے والا ملک ہے وہ امریکہ سے یہ منصب چھیننے کے قریب ہے۔ امریکہ نے 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں سائنسی تحقیق سے متعلق مضامین کی اشاعت میں 3فیصد زوال کیا ہے۔ امریکہ کو سہارا ہاورڈ یونیورسٹی، سٹین فورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور ایم آئی ٹی نے دیا ہے تما م سائنسی مضامین میں 50فیصد حصہ ان چند اداروں کا ہوتا ہے چین کے کئی اہم ادارے (چائنیز اکیڈمی سائنسز، پیکنگ یونیورسٹی، نانجنگ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا اور سن ژوایونیورسٹی) اس سمت پیش پیش ہیں اور اس ملک نے سائنسی مضامین کی اشاعت میں 15فیصد ترقی کی ہے۔ جرمنی نے 2.6فیصد اور یوکے نے 4.0زوال کیا ہے۔ کیمبرج امپیرئل کالج آف لندن اور یونیورسٹی آف لندن جیسے نامور ادارے بھی سائنسی مضامین کی اشاعت میں برتری نہ دلاسکے۔جاپان 6.1فیصد، فرانس 7.4فیصد، کینیڈا 2.7فیصد ساوتھ کوریا، 1.8فیصد مغرب میں اس شعبے میں سب سے زیادہ زوال ائرلینڈ میں آیا جو 18فیصد ہے البتہ آسٹریلیاں میں 7.5فیصد ترقی ہوئی ہے۔ اس فہرست میں انڈیا زوال پذیر ہونے کے بعد 13ویں نمبر پر آگیا اب آئیے پاکستان کی طرف پاکستان 44ویں نمبر پر ہے پاکستان میں سائنس تحقیق پر مبنی مضامین کی اشاعت میں 33فیصد تک زوال آیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ہم نے ہزار سال آگے ہے کیونکہ مغرب اپنے تعلیمی اداروں میں سائنسی مضامین پر زور دیتا ہے اور ان کے بچے ڈگریوں سے فارغ ہوکر بڑی بڑی ایجادات کرتے ہیں کیونکہ مغرب میں باقاعدہ تحقیق اور ریسرچ سنٹر ز ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی کرایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں