پاکستان کی اکانومی بائیس کاروباری خاندانوں کے تسلط میں ہے۔

انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان میں بائیس خاندانوں کا بے حد چرچا رہا۔ ہر طرف مشہو ر تھا کہ ان بائیس خاندانوں نے ملک بھر کی دولت سمیٹ لی ہے ”بائیس خاندانوں“ کی اصطلاح ڈاکٹر محبو ب الحق سے منسوب کی جاتی ہے ہے جو اس وقت پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں چیف اکونومسٹ تھے۔انہوں نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اکانومی بائیس کاروباری خاندانوں کے تسلط میں ہے۔ یہ بائیس خاندان 66فیصد صنعتوں 70فیصد انشورنس کمپنیوں اور 80فیصد بنکوں کے ماملک ہیں۔ ڈاکٹرحق کا مقصد شاہد ریاست کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ دولت کی مساویانہ تقسیم کے بارے میں اقدامات کرے اس بیان کے بعد دولت کی مساوی تقسیم تو نہ ہوسکی البتہ بائیس خاندان نفرت کا نشانہ ضرور بن گئے۔ کچھ لوگ امیر ہوجائیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دوسرے لوگ غریب تر ہوگئے۔ تجارت اور کاروبار کا بڑا مقصد دولت کمانا ہی ہے دولت کی تقیم کی ذمہ داری تو ریاست کی ہے لیکن ان باتوں پر کسی نے توجہ نہ دی یہاں تک کہ بائیس خاندانوں کی اصطلاع ایک الزام بن گئی۔ سیاست دان اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ان خاندانوں کو موردَ الزام ٹھہرانے لگے۔ ایک انقلابی شاعر حبیب جالب نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ میں ان بائیس خاندانوں کے بارے میں کئی نظمیں لکھیں اور ملک بھر میں ان کے باغیانہ اشعار گونجنے لگے۔
بعض لوگوں نے ان جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ مزدوروں کو کہا گیا کہ وہ کارخانوں اور ملوں پر قضہ کرلیں اور یوں کچھ ہی عرصہ بعد صنعتوں کو قومیانے یا نیشنلائزیشن کا وہ عمل شروع ہوا جو پاکستان میں صنعتی ترقی کے زوال کا آغاز تھا۔ اس کے بعد ترقی کا پہیہ آگے نہیں بڑھا اور ایشین ٹائیگر بننے کا خواب گھٹ کے رہ گیا۔ اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک بہت بڑی برائی ہے اور یہ عدم مساوات کو جنم دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا برائی نظام میں ہے یا اس شخص میں جو ذاتی محنت اور قابلیت کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے اور پھر کامیابی کی بلند منزل تک پہنچے یا پھر ایسا ہے کہ جو شخص سرمایہ دارانہ نظام کے اس گورکھ دھندے کا حصہ بنتا ہے وہ اخلاقی اقدار سے دور ہوجاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں