چاند پر انسانوں کی بستیاں آباد کرنے کی تیاریاں۔

مستقبل چاند پر ہے تو پانی، ہوا اور خوراک کی کیا تیاری ہے اور دوسرے سیاروں کا کیا ہوگا چاند کی نئی مہم کامیاب ہوگئی تو مریخ پر بھیجی جانے والی مہموں کے سلسلے میں بھی معاونت ملے گی۔
کئی صدیوں بعد انسان نے باقاعدہ گھر بناکر رہنے کا آغاز کیا تب چاند کی روشنی رات کے سفر میں اس کی معاونت کرتی اور چاند، ستاروں ہی کے ذریعے وہ سمت کا تعین کرتا تھا۔ مگر چاند کا گھٹنا بڑھنا اور کچھ راتوں میں بالکل غائب ہوجانا اسے طرح طرح کے شکوک میں مبتلا کرتا رہتا ہے اور ہر دور میں چاند و سورج سے متعلق ماورائی قصے کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں لیکن اب آریٹمس سوم نامی نئی مہم میں ایک بار پھر چاند پر خلاباز (بشمول چاند پر قدم رکھنے والی پہلی خاتون خلاباز) بھیجے جائیں گے۔ اگر یہ مہم کامیاب ہوجائے تو ناسا کے لیے یہ جاننا ممکن ہوگا کہ قمری پانی اور برف جیسے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کو چاند پر کس طرح آباد کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں مستقبل میں مریخ پر بھیجی جانے والی مہموں کے سلسلے میں بھی معاونت ملے گی۔ ناسا کو یہ بھی معلوم کرنے کا موقع ملے گا کہ چاند کس طرح سے بنا اور اس میں وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں آئیں؟
یہ معلومات زمین اور نظام شمسی کی تاریخ سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ چاند پر روبورٹس کے بجائے انسان بھیجنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے لئے چاند کی سطح پر سائنسی تجربات کرنا ممکن ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان چاند پر ایسے آلات نصب کرسکتے ہیں جو طویل عرصے تک ڈیٹا حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق آرٹیمس سوم کی شکل میں ناسا کو چاند کے ماحول اور ساخت کی پیمائش کے لیے آلات کا جال بچھانے کا بہت اچھا موقع ملا ہے۔ جسے گنوانا بے وقوفی ہوگی۔ ناسا کو سب سے زیادہ دلچسپی چاند پر ہونے والے زلزلوں میں ہے۔ چار دہائی پہلے چاند پر بھیجی جانے والی اپولومہم سے یہ بات سامنے آئی کہ چاند کی سطح ساکن نہیں ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے زلزے آتے رہے ہیں جو چاند کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں سائنسدانوں کو شک ہے کہ ان زلزلوں کی وجہ سے چاند کی ساختمانی تختیاں نہیں بلکہ زمین کی کشش ثقل کے ساتھ تصادم ہے لیکن ان کے پاس اس تھیوری کی تصدیق یا تردید کے لیے ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ناسا 2024ء کے بعد دوبارہ چاند پر جاکر انسانی تاریخ کی سب سے پہلی خلائی بستی کی بنیاد رکھنا شروع کرے گا۔ اس کے علاوہ ناسا مریخ پر خلائی مہمیں بھیجنے کی بھی تیاری کررہا ہے۔ امریکہ کی اب تک کی آخری خلائی مہم 1970ء کی دہائی کی اپولو مہم تھی اور اب ناسا ایک بار پھر چاند پر جاکر خلاء کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہ رہا ہے۔ 7دسمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناسا چاند کے متعلق کیاجاننا چاہتا ہے اور خلاباز اس سلسلے میں کس طرح معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اپولو کے آلات کو 1977میں بند کردیا گیا تھا لیکن آرٹیمس کی مہم کی بدولت ناسا کو چاند پر زلزلہ شناسی کے نئے آلات کا جال بچھانے کا موقع ملے گا۔ اس سے ان کے لیئے چاند کے حساس زلزلوں کی نشاندہی کرنا اور ان کی وجوہات کا تعین کرناممکن ہوگا۔ ہمیں یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ چاند پر وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔ اگر چاند پر مستقبل میں کبھی کوئی بستی آباد ہوئی تو اس پانی کی مدد سے آکسیجن، پینے کا پانی اور زمین پر واپسی کے رائٹس کا ایندھن تیار کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔ اس پانی تک رسائی ہماری توقعات سے کہیں زیادہ آسان بھی ہے آرٹیمس سوم کی بدولت ہمیں پہلی بار چاند کے پانی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم یہ جان سکتے ہیں کہ چاند پر پانی کس حالت میں موجود ہے، اس کا آبی چکر کیا ہے،وہ چاند پر کہاں کہاں موجود ہے اور اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس مطالعے سے یہ بھی معلوم کیا جاسکے گا کہ یہ پانی کتنی گہرائی پر موجود ہے اس کی کیمیائی خصوصیات کیا ہیں۔ چاند کی حالت دیکھ کر ہمارے لیے یہ جاننا ممکن ہوگا کہ زمین پر اربوں سال پہلے کیا ہوا تھا۔ زمین کے مقابلے میں چاند کہیں زیادہ سنسان ہے اور یہاں کرہ ہوا کا بھی کوئی وجود نہیں ہے اسی لیے چاند کی سطح پر شہائی پتھروں کے اثرات کا تعین کرنا زیادہ آسان ہے۔ چاند کی سطح کے گڑھوں کا مطالعہ کرکے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چاند جس زمین کے گرد چکر کاٹ رہا ہے اس پر کیا ہوا تھا۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق آڑٹیمس سوم کے عملے کو چاند کے مختلف حصوں سے نمونے حاصل کرنے چاہیے اس کے علاوہ، اپولو کی مہم سے زیادہ بڑی تعداد میں نمونے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان پر دل کھول کر تجربات کیے جاسکیں۔ ان تجربات کے نتیجے میں قمری نمونوں کی شکل مستقل طو ر پر بگڑنے کی صورت میں کم از کم یہ تسلی تو نی چاہیے کہ ہمارے پاس بڑی تعداد میں نمونے بچے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں