کورونا اور بیگمونا وائرس کی تباہ کاریاں۔

میاں افطاری کے بعد چائے کی چسکی لیتے ہوئے واٹس ایپ میں کھبے ہوئے تھے۔ جب چائے پر رفتہ،رفتہ جھلی بیٹھ گئی تو میاں جی، ہلکی سی چسکی لیتے ہوئے بد مزہ ہوگئے۔ کبھی پیالی کو اور کبھی اپنے ہونٹوں پر ٹشو پھیرتے ہوئے بیگم پر برھم ہوگئے، یار پوری زندگی چائے بنا، بناکر بھی ڈھنگ سے چائے نہیں بن پائی۔

آپ کو کبھی کوئی چیز پسند بھی آئی ہے، بیگم نے فرعونی لہجے میں گھور کر کہا؟

میاں جی، کھسیانی بلی کی طرح آنکھیں چراتے ہوئے بولے، ساجن آپ کو پسند کرکے زندگی بھر کا پچھتاوا کیا کم ہے کہ روز، روز پسند ناپسند کے چکر میں پڑا رہوں، بس یہی کافی ہے کہ چائے ایسی بنایا کریں جس پہ جھلی نہ بیٹھ سکے۔

اتنی سی لطیف گفتگو ایسے لا متناہی سلسلے کی بنیاد بن جاتی ہے، جسے بل گیٹس جیسا ماہر منتظم بھی حل نہیں کرپاتا۔

ہے کوئی مسیحا اس کائنات میں جو اس موذی مرض کا علاج ڈھونڈ سکے، جو لاکھ کورونا سے زیادہ مہلک اور جان لیوا ہے۔ کورونا تو ایک بار جان لے لیتا ہے جبکہ بیگمونا وائرس روز تین چار بار ڈستا ہے اور جان بیچاری نہ نکلتی ہے اور نہ بحال ہوتی ہے، بس سسکتی ہی چلی جاتی ہے۔

کورونا کی سختی کو امیون سسٹم سے بحال کیا جاسکتا ہے جبکہ بیگمونا وائرس کے لیے صرف ڈھیٹ پن میں پختگی ہی موت سے بچاسکتی ہے۔ ڈھیٹ پن بھی ایسا کہ اس کی پوٹینسی میں مسلسل اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ خیر پوٹینسی بیگمونا وائرس کے حملوں سے ازخود بڑھتی رہتی ہے، شرط یہی ہے کہ میاں جی ری ایکٹ نہ کریں۔ ایک بار کا ری ایکشن بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے، اس لیے چائے کی جھلی سے لیکر صابن، تولیہ، ملبوسات کی تلاش، بوٹ پالش، کھانے میں تاخیر، تیز مرچ، کم نمک، یخ ٹھنڈے سالن، گرم پانی، صدیوں پرانے موزوں اور اپنی ادویات سمیت کسی بھی شے کی عدم دستیابی پر سوال نہیں اٹھانا۔ یعنی سوال کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، بس تسلیم ورضا، بلکہ غیر مشروط اطاعت و پیروی ہی آپ کے زخموں پر نمک پاشی سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔

بل گیٹس بیچارے تک ہمارا نسخہ کیمیا پہنچ جاتا تو بقول زبیدہ آپا یہ “مائل سٹون” بھی عبور نہ ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں