تاریخ کیا ہے تاریخ کیوں ضروری ہے تاریخ سے کیا حاصل ہوتا ہے۔۔؟

علم تاریخ اصطلاحا اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ باشاہوں، نبیوں، فاتحوں اور مشہور شخصوں کے حالات اورگزرے ہوئے مختلف زمانوں کے عظیم الشان واقعات و مراسم وغیرہ معلوم ہوسکیں اور جو زمانہ گزشتہ کی معاشرت، اخلاق، تمدن وغیرہ سے واقف ہونے کا ذریعہ بن سکے۔ بعض شخصوں نے تاریخ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ انسانوں کے یک جاہو کر رہنے کو تمدن او ر اس انسانی مجمع کو مدینہ اور ان مختلف حالتوں کو جو طبعا اس کو عارض ہوں۔ واقعات تاریخ اور پچھلوں کو پلوں سے سن کر ان واقعات کو اکٹھا کرنے اور اپنے سے پیچھے آنے والوں کی عبرت اور نصیحت کے لیے بطور نمونہ چھوڑ جانے کو تاریخ کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تاخیر کے جزو آخر کو مقلوب کرکے لفظ تاریخ بنایا گیا ہے۔ اور تاخیر کے معنی ہیں۔ اولین وقت کو آخرین وقت کے ساتھ نسبت دینا مثلا یہ بتلانا کہ فلاں مذہب یا فلاں سلطنت یا فلاں معرکہ فلاں وقت میں ظاہر ہوا تھا جو واقعات خاص اس وقت میں ظہور پذیر ہوئے ان سب کو معلوم کرنے کا مبداء یہی وقت ہوتا ہے۔ غرض اسی طرح تاریخ کی تعریف بیان کرنے میں بڑی بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں۔ لیکن خلاصہ اور حاصل مطلب سب کا وہی ہے جو اوپر سب سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اس مذکورہ خلاصہ کا اور بھی خلاصہ کرنا مقصود ہوتو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ”جو حالات و اخبار بقید وقت لکھے جاتے ہیں ان کو تاریخ کہتے ہیں۔

تاریخ کی ضرورت۔

تاریخ ہم کو بزرگوں کے حالات سے واقف کرکے دل و دماغ میں ایک بابرکت جوش پید اکردیتی ہے۔ انسانی فطرت میں ایک خاص قسم کی پیاس اور خواہش ہے جو ممالک کی سیاحی، باغوں کی سیر اور کوہ و صحرا کے سفر پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی فطری تقاضا ہے جو بچوں کو رات کو چڑ ے چڑیا کی کہانی اور جوانوں کی طوطا مینا کی داستان سننے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور یہی تقاضا ہے جو ”فاسلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون“ کے حکم کی تعمیل اور تاریخی کتابوں کے مطالعہ کیطرف انسان کو متوجہ کرتا ہے۔ اس فطری تقاضے پر نظر فرما کر فطرتوں کے خالق نے کتب سماویہ میں شاشنی رکھی ہے۔ بنی اسرائیل کی کیسی عظیم الشان قو م تھی کہ نخن ابناء اللہ و حباہ تک کہہ گزرے لیکن جب آپنے بزرگوں کے حالات سے بے خبر ہوتے گئے قعر مذلت میں گرتے گئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یا بنی اسرائیل اذکروا کے الفاظ سے بار بار ان کو مخاطب فرمایا اور ان کے بزرگوں کے حالات کو یاد دلایا ہے۔

تاریخ کے فوائد۔

تاریخ کا مطالعہ حوصلہ کو بلند کرتا ہمت کو بڑھاتا ہے نیکیوں کی ترغیب دیتا اور بدیوں سے روکتا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اور بصیرت ترقی کرتی ہے دور اندیشی بڑھتی، حزم اور احتیاط کی عادت پید اہو جاتی ہے۔ دل سے رنج و غم دو ہوکر مسرت و خوشی میسر ہوتی ہے۔ تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں میں احقاق حق اور ابطال باطل کی قوت ترقی کرتی اور قوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے۔ تاریخی مطالعہ سے صبر و استقلال کی صفت پیدا ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ہر وقت تازگی اور نشونمائی کی کیفیت موجود رہتی ہے۔ غرض کہ علم تاریخ ہزاروں واعظوں کا ایک واعظ اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ تاریخی مطالعہ کے ذریعہ انسان ہر وقت اپنے آپ کو بادشاہوں، فاتحوں، رسولوں، ولیوں، حکیموں، عالموں اور باکمالوں کی مجلس میں موجود دیکھتا ہے اور ان تمام معززین سے استفادہ کرتا ہے۔ بڑے بڑے بادشاہوں،وزیروں، سپہ سالاروں اور حکیموں سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں یہ ان سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کوئی علم ایسا نہیں جس کے مطالعہ کو انسان اس قدر مسرت اور شادمانی کے ساتھ بلاکسی قسم کی کوفت و ماندگی برداشت کئے ہوئے جاری رکھ سکے جیسا کہ تاریخی مطالعہ کو جاری رکھ سکتا ہے۔

فوجی خصوصیات کی حفاظت بذریعہ تاریخ۔

جس قوم کوا پنے تاریخی حالات اورپاستانی واقعات سے پورے طور پر اطلاع ہوتی ہے اس کے قومی امتیازات اور خصوصیات بھی محفوظ اور قائم رہتے اور قوم کے افراد کاکسی میدان اور کسی مقابلہ میں دل ٹوٹنے دیتے، بلکہ کمر ہمت کو چست رکھ کر انجام کا ر کھوئے ہوئے کمالات تک پھر پہنچا دیتے ہیں وہ شخص جو اپنے باپ دادا کے حالات سے بے خبر ہے موقع پا کر خیانت کر سکتا ہے۔ لیکن جو یہ جانتا ہے میرے دادا نے فلاں موقع پر لاکھوں روپے کی پرواہ نہ کرکے دیانت کو ہاتھ سے نہ دے کر عزت و ناموری حاصل کی اس خیانت کا ارتکاب دشوار ہے اسی طرح وہ شخص جو اپنے باپ دادا کے حالات سے بے خبر ہے میدان جنگ سے جان بچا کر فرار کی عار گوارا کرسکتا ہے۔لیکن جوواقف ہے کہ میرے باپ نے فلاں فلاں میدانوں میں اپنی جان کو معرض ہلاکت میں ڈال کر میدان جنگ سے منہ نہ موڑ کر عزت اور شہرت حاصل کی تھی وہ کبھی نہ بھاگ سکے گا اور فرار کا خیال دل میں آتے ہی اس کے باپ کے کارناموں کی یاد زنجیر پا ہوجائے گی۔ اسی طرح وفا صدق مقال، پاک دامنی، حیا سخاوت وغیرہ اخلاق فاضلہ کوقیاس کرلو۔ بزرگوں کے حالات کی واقفیت ہی دنیا میں بہت کچھ امن اور قوموں میں زندگی کی روح پیدا کرسکتی ہے غالبا اسی بات پرغور کرکے ہماری ہمسایہ قوموں میں سے بعض نے جو اپنی کوئی شان دار تاریخ نہیں رکھتیں فرضی افسانوں اور جھوٹے ناولوں کو تاریخ کا جامعہ پہنا کر اپنا کام نکالنا چاہا ہے اور مطلق پرواہ نہیں کی کہ ہم راست گفتاری کی عدالت اور مورخوں کی مجلس میں کس قدر ذلیل و خوار ٹھہرائے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں