حبیب جالب جس نے تنگ دستی و مفلسی میں جان دے دی مگر، اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔

حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ 24مارچ 1928ء کو بھارتی پنجاب کے شہر،ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کانام صوفی عنایت اللہ اور والدہ کا نام رابعہ بصری تھا۔ انہوں نے ساتویں جماعت ہی سے شعر کہنا شروع کردئیے تھے۔ ابتداء میں حبیب احمد مست میانوی کے نام سے اشعار لکھتے رہے دہلی میں اپنے بھائی مشتاق مبارک کے ساتھ کئی اردو مشاعروں میں بھی شریک ہوے جہاں اردو کے معروف شعراء جگر مراد آبادی، بے خود اور داغ دہلوی کے ساتھ کلام سن کر مزید پختگی حاصل کی۔ غریب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے گھر کی کفالت کے لئے مزدوری بھی کی۔ وہ جب اسکول میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی، اسکول سے لوٹتے ہی فوجی بیرکوں میں مزدوری کی خاطر چلے جاتے، جہاں دیگر بچوں کے ساتھ تھیلوں میں چنے بھرنے کا کام کرتے۔ انہیں 100تھیلے بھرنے کی مزدوری 12آنے ملتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب کراچی آئے تو بندرگاہ پر مزدوری کی ساتھ ہی جیکب لائن کراچی کے سرکاری اسکول میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ میٹرک کے بعد”روزنامہ جنگ“ کراچی اور روزنامہ ”ڈان“ میں بطور پروف ریڈر کام کرتے رہے، تاہم آزاد طبع ہونے کی وجہ سے مستقل کسی ایک جگہ نہیں ٹکے اخبار کی ملازمت چھوڑ کر فیصل آباد میں کپڑے کے کارخانے سے منسلک ہوگئے۔ وہاں ملازمت کے دوران ایک مشاعرے میں جب صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر تنقیدی اشعار پڑھے تو انہیں نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
وہ ایک ثابت قدم انسان تھے۔ انہوں نے جو نظریہ اور انقلابی راہ اختیار کی اس پر آخر وقت تک قائم رہے، بلکہ اپنے عملی کردار کے ذریعے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ رواجی انقلابی نہیں، بلکہ ایک عملی مجاہد ہیں۔ وہ ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہم درد انسان بھی تھے۔ جس کے سینے میں ایک حساس دل دھڑکتا تھا۔ وہ محض اپنے ملک اور عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوم اور محکوم طبقے کے دکھ درد میں شدت محسوس کرتے تھے۔ ہمیشہ غریبوں ِ، مسکینوں، ہاریوں اورمحنت کش طبقے کو بھوک اور بدحالی کی دلدل سے نکالنے کے لیے انہیں اپنا موضوع سخن بنا کرجاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کو للکارتے رہے اور مظلوم طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے شاعری کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ان کی شاعری عشق و محبت، موسموں، پھولوں پودوں یا چاند ستاروں پر محیط نہیں تھی، بلکہ وہ آزدی، امن و اتحاد، محبت و یکانگت، عالم انسانیت اور دھرتی کے بھی شاعر تھے۔ جالب جہاں شاعری میں جہاں دکھی انسانیت کا پر آشوب درد شامل تھا وہیں وہ آنے والے خوب صورت زمانے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ بے شمار مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود وہ ہر لمحہ خطرات کو للکارنے پر تلے رہتے۔ جنرل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جنرل یحیی ٰ خان برسراقتدار آئے تو کو ہ مری میں فیض احمد فیض کی صدارت میں منعقدہ مشاعرے میں جالب نے حاضرین کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ آج بہت عرصے بعد فیض احمدفیض صاحب کی صدارت میں ایک غزل سنانا چاہتا ہوں، جو جنرل یحیی ٰ کی جانب منسوب ہے:

تم سے پہلے جو ایک شخص یہاں تخت نشین تھا۔۔۔ اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا۔
کوئی ٹھہر ا جو لوگوں کے مدمقابل تو بتاو وہ کہاں ہیں۔۔۔۔۔کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا۔
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو۔۔ا ک زمانے میں مزاج ان کا سرعرش بریں تھا۔

اپنی جرات و اظہار سے اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال لانے والے جالب بنیادی طور پرا یک نظریاتی شاعر تھے، جو عالم انسانیت ک بقاء خوش حالی اور سلامتی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں بھی بڑھتی ہوئی کرپشن دیکھی تو چپ نہ رہ سکے اور برملا اظہار کردیا۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے۔۔ دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض۔۔ پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔

یہ خودار شاعر جب شدید بیمار پڑا تو اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ عیادت کے لیے ان کے گھر تشریف لائیں اور بیرون ملک سرکاری خرچے پرعلاج کی پیش کش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر ان کی پیش کش کبھی قبول نہیں کی، یہاں لوگوں کو علاج کے لئے ایک گولی ڈسپرین کی میسر نہیں میں بیرون ملک کیسے علاج کے لئے چلا جاوں۔ بعدازاں محترمہ کے دور میں جالب کی جرات مندانہ شاعری کے اعتراف میں انہیں ”جمہوریت ایوارڈ“ سے نوازا گیا اور ایوارڈ کے ساتھ ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بھی دی گئی،جسے جالب نے لینے سے انکار کردیا۔ تاہم بعدازاں دوستوں اور بہی خواہوں کے بے حد اصرار اور مشورے پر قبول کرلی۔ قبل از اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الہی جالب کے دیرینہ رفیق اور قددان تھے۔ تو جالب کو حکومت کی جانب سے 5لاکھ روپے کا عطیہ دینے کی کوشش کی۔جس پر انہوں نے پیار سے کہا ’میں تمہیں اپنا بھتیجا سمجھتا ہوں اور اس حیثیت سے اگر تم مجھے کچھ دینا ہی چاہتے ہوتو 50روپے میرے سرہانے رکھ جاو
۔ میں بخوشی سے قبول کرلوں گا، مگر ایک وزیر کی طرف سے 5لاکھ روپے قبول نہیں کرسکتا۔
واضح رہے کہ انہوں نے غریب اور مفلسی کے باوجود عراق، ایران اور لیبیا کی حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ چیکس بھی واپس کردئیے تھے۔
غریب عوام کا یہ امیر شاعر 12مارچ 1993ء کو ا س جہان فانی سے رخصت ہوگیا مگر آج بھی اس کی شاعری کو سن اور پڑھ کر ایک امید ضرور بندھتی ہے۔ سچائی اور آزدی کے حصول پر یقین تازہ ہوجاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں