حسن صباح اور اس کی جماعت کا اختتام کیسے ہوا۔؟

صلیبی محاربین سے زیادہ شدید ایک دوسرا دشمن مسلمانوں پر حملہ کرکے عنقریب ان کی ریاستوں کو تہہ بالا کرنے والا تھا۔ یہ شدید دشمن منگولوں کی قوم تھی جس نے چنگیز خان کے ساتھ دنیا میں خروج کیااور شہروں کو جلا جلا کر پوری پوری انسانی آبادیوں کو فنا کر ڈالا۔ اور جو چیز ان کے راستے میں حائل ہوتی تھیں اس کا نام و نشان مٹا مٹا کراپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ قوموں کو تباہ کردینے والے مشرک و کافر منگول خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے شدید خونخوار دشمن تھے اِدھر خلیفہ بغداد کی ناعاقبت اندیشی نے اس کو منگولوں کے سردار منگو خان کے غیظ و غضب اور فوجوں کا شکار بنا دیا۔
اسلام کے سینے میں جو بے شمار فرقے پرورش پارہے تھے ان میں سب سے زیادہ دلیر اور بے باک باطنیہ فرقہ تھا جن کو قاتلین بھی کہتے ہیں ان لوگوں نے دو صدیوں تک عیسائیوں اور مسلمانوں کو سراسیمہ رکھا۔ باطنی فرقے کے پیشوا حسن صباح نے اپنے ذمے خود ہی مظالم کی تلافی اور جرائم کی سزا کا فرض عائد کرلیا تھا۔ جس کی تکمیل اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ اپنے فدائیوں کو ہر اس شخص کے قتل پر روانہ کرتا تھا جو اس کی دانست میں مجرم ہو حسن صباح اپنے آپ کو شیخ الجبل کے نام سے مخاطب کرواتا تھا حسن صباح عراق و عجم کے پہاڑوں میں رہتا تھا اور اس کے پیرو کار جو مغربی ایشیاء میں پھیلے ہوئے تھے اس کے احکام کی اندھا دھند تعمیل کرتے تھے۔ حسن صباح کا زوال اس وقت آیا تھا جب منگول سردار منگو خان نے باطنیوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا تب منگو خان نے اپنی فوج کو ساتھ لیا اور باطنیوں کو ہر طرف سے گھیر کر ان کا نہایت ہی بے رحمی سے قتل عام کیا اور باطنیوں کا آخری سردار بچ گیا جب اس نے دیکھا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو وہ مجبو ر ہوکر منگولوں کی اطاعت پر مجبور ہوگیا اور اس نے منگولوں کی اطاعت کرلی۔
منگو خان نے اپنی اس مہم کے لیے جس کا تمام بادشاہوں کی سلامتی سے تعلق تھا خلیفہ بغداد سے امداد طلب کی تھی۔ اس کے انکار کردینے پر اس نے اپنے بھائی ہلاکوں خان کو بغداد کے محاصرے کے لیے روانہ کیا۔ منگولوں کے اس انقلاب نے ہر طرف شہر میں خون کی ندیاں بہا دیں اور عباسیوں کا آخری خلیفہ مستعصم معہ اپنے خاندان کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ 1258ء ایشیائے کوچک نے ڈر کر اطاعت قبول کرلی اور منگولوں کی ماتحتی میں قونیہ کے سلجوقیوں کا صرف نام ہی باقی رہ گیا۔
منگو خان کے بعد منگولوں کی وسیع سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ چین پر ایک علیحدہ خاندان نے قبضہ کرلیا اور فارس اور مغربی ایشیا میں ایک جداگانہ سلطنت قائم ہوگئی۔یہ موخر الذکر سلطنت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہی تو تاتارویں کی تمام ترتوجہ بہت جلد فارس کی طرف منذول ہو گئی۔ یہ حالت دیکھ کر جو صوبے دارالسلطنت سے دوردراز فاصلے پر واقع تھے ان کے عاملوں نے بغاوت کردی اور سلطان روم کے نام سے مسلمان امیروں نے باقاعدہ ریاستیں قائم کرنے کی کوششیں شروع کردی۔

قونیہ کے سلاطین:
قونیہ کے سلاطین نے اپنا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہاتھ پیر مارے لیکن ان کو مایوسی ہوئی ان کی طاقت جو منگولوں کے گاہ بگاہ حملوں کے بعد بھی کسی قدر باقی رہ گئی تھی وہ چھوٹے چھوٹے بادشاہوں کے ساتھ پہیم جنگ و جدال میں تباہ ہوئی اور اسی طوائف الملوکی اور انتشار کی بدولت آل عثمان کی طاقت کا ظہور ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں