حضرت عثمان ؓ کا دورِ خلافت اور سیاستِ عثمانی کیسی تھی۔

حضرت عثمان ؓ کے عہد میں تمام داخلی فتنوں اور بغاوتوں کو فرو کیا کیا اور خارجی فتوحا ت کا سلسلہ جاری رہا۔ ایران، عراق،شام، مصر کے مفتوحہ علاقوں میں جہاں جہاں بد عہدی ہوئی یا علم بغاوت بلند ہوا، مسلمان فوجوں نے باغیوں کی سرکوبی کرکے امن بحال کردیا۔ اسی طرح افریقہ الجزائر، مراکش، آرمینیا، قبرص، طخارستان، غزنہ، کرمان، سجستان اور زابلستان وغیرہ کے علاقے فتح کرکے سلطنت اسلامی میں شامل کیے گئے۔
آپ ؓ کے ارادے اتنے بلند تھے کہ آپ ؓ نے سندھ کو فتح کرنے کی داغ بیل ڈالی آپ نے ایک تحقیقاتی وفد سندھ کے علاقہ میں بھیجا تاکہ اس سرزمین کی اب و ہوا، پیداوار اور لوگوں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔ اس وفد کی رپورٹ چنداں ہمت افزا نہ تھی۔ اس لیے فتح سندھ کو منصوبہ عارضی طور پر ملتوی کردیاگیا۔ حضر ت عثمان ؓ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے ہی صلہ رحمی کی وجہ سے اپنے کنبے کا بہت خیال رکھتے تھے، انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں بھی ایسا ہی کیا اور اپنے بعض مستحق عزیز و اقارب کو ذمہ داریاں تفویض کیں اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا۔ آپ کافی عمر رسیدہ ہو چکے تھے ضعف پیری نے عزم و ارادہ میں بھی کمزوری اور ضعف پید اکردیا تھا۔ آپ ؓ کی نرمی اور ضعف ارادہ نے آپ کے رشتہ داروں افسروں کو موقع دیا کہ وہ من مانی کاروائیاں کریں۔ چنانچہ آپ کا میر منشی (کاتب) مروان بن حکم جو چاہتا کرتا۔
حضرت عثمان ؓ کی سیاست اس لحاظ سے سیاست فاروقی سے بڑی مختلف تھی کہ حضرت فاروق اعظم ؓ لوگوں کو صرف گزارے کے لیے روپے دیا کرتے تھے۔ وہ بڑے بڑے صحابہ کرام ؓ کو بھی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں سیرو سیاحت کے لیے جائیں۔ اس کے برعکس حضرت عثمان ؓ نے بڑی بڑی رقوم دے کر تمول اور دولت مندی کو عام کر دیا۔ نیز آپ ؓ اس بات کے قائل تھے کہ لوگوں کو انفرادی آزادی حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ ہر جائز کام کرسکیں اور جہاں چاہیں چلیں پھریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عہد عثمانی میں لوگ مفتوحہ صوبوں میں آنے جانے لگے اور وہاں کے تمدنی اور ثقافتی اثرات اور بالخصوص مضرتیں اور برائیاں ساتھ لائے۔
حضرت عمر ؓ صوبائی والیان کو سادہ زندگی اور سخت کوشی کا عادی بنانا چاہتے تھے اور ہر وقت انہیں ہدایات بھیجتے رہتے کہ تن آسانی اور ٹھاٹھ کی زندگی اختیار نہ کریں۔ اس کے برعکس حضرت عثمان ؓ مسلمانوں کو اقتصادی اور معاشی آزادی دینے کے حامی تھے۔ اسی لیے لوگ تن آسان بن کر ٹھاٹھ اور مزے بسر کرنے لگے۔
حضرت عثمان ؓ کی یہ عادت تھی کہ جب لوگ باہر کے صوبوں سے آتے تو آپ ؓ ان سے والیوں او ر حاکموں کے بارے میں پوچھتے، لیکن طبعاً نرم مزاج تھے۔ اکثر اوقات درگزر سے کام لیتے نتیجہ یہ ہوا کہ سرکش اور بغاوت پسند عناصر آپ کی نرمی اور بردباری سے ناجائز فائدہ اٹھاٹے ہوئے ملک میں شور ش بپا کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی نرم مزاجی کی بدولت آپ کا دبدبہ اور ہیبت کم ہوتی چلی گئی اور شرارت پسند عناصر کی جرات ملک کے امن و امان کے لیے خطرے کا باعث بن گئی۔

فتنہ شہادت عثمان ؓ:
حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے پہلے چھ سال تو قدرے سکون اور امن و سلامتی سے گزرے۔ آخری چھ سال شورش اور اندرونی فتنوں کی نذر ہوگئے۔حضرت عثمان ؓ نے زکوۃ کی ادائیگی کا معاملہ دولتمند وں پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسے چاہیں خرچ کریں۔ جب مدینے کے لوگ خوش حال و فارغ البال ہوگئے تو طرح طرح کے لہو و لعب میں مشغول ہونے لگے۔ حضرت عثمان ؓ نے بعض کو سختی سے روکا اور بعض کو جلاوطن کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، اس پر بعض قبائل اور سرداران قوم بگڑ گئے۔
چند اکابر صحابہ کرام ؓ کو سیاسی اختلاف کی بنا پر سرزنش اور فہمائش کی گئی تو بنو ہذیل، بنو زُہرہ، بنو غفار اور بنو مخزوم انتقامی جذبات سے مشتعل نظر آئے۔ ان کے علاوہ اور وجوہات بھی پید اہوگئی تھیں جن کی بنا پر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔
1۔ حضرت عثمان ؓ نے جاگیریں عطا کرنا شروع کردیں۔
2۔ آپ تکبیر آہستہ آواز سے کہنے لگے۔
3۔ حضرت عثمان ؓ نے جمعہ کے دن ایک اذان کی بجائے دو اذانوں کا رواج ڈالا۔
4۔ گھوڑے اور غلام کی زکوۃ عہد نبوی ﷺ میں نہ تھی۔ حضرت عثمان ؓ نے گھوڑے کی زکوۃ وصول کی۔
مختلف عناصر نے ملک بھر میں آتش فساد بھڑکا دی۔ حضرت عثمان ؓ نے ہر چند کوشش کی کہ اس سلکتی آگ کو بجھا دیا جائے۔ لیکن ان انگاروں نے شعلہ زن ہوکر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تمام لوگ حضرت عثمان ؓ کو معزول کرنے پر تل گئے۔ آخر کار مشتعل ہجوم نے آپ ؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور جوش میں آکر حضرت عثمان ؓ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کیا گیا
امیر المومنین حضرت عثمان ؓ بڑھاپے کے عالم میں 12برس کی خلافت کے بعد 18ذوالحجہ سن 35ہری بعمر 82سال، شہید کردئیے گئے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت ایک بڑا ہولناک واقعہ تھا اس کے بعد عالم اسلامی کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، سلطنت اسلامی کا شیرازہ بکھر گیا۔ مسلمان گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی زندگی پر ایک ایسا انتشار پیدا ہوا کہ پھر کبھی شیرازہ بندی نہ ہوسکی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں