حضرت عمر فاروقؓ کا اسلام لانا۔

حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر قریش کے فکرو تردد اور بغض و عداوت نے اور بھی ترقی کی اورآپس میں مشورے ہونے لگے۔ حضرت عمر فاروق ؓ حضرت حمزہؓ کی طرح مشہور پہلوان اور عرب کے نامور بہادروں میں سے تھے۔ مسلمانوں کو ایذا پہنچانے اور آنحضرت ﷺ کے خلاف کوشش کرنے میں نمایاں حصہ لیتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو پکڑ کر لاتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو دم لیتے اور پھر اٹھ کر مارتے۔ غرض کہ انہوں نے مسلمانوں کو دین اسلام سے مرتد بنانے کی بے حد کوشش کی اور ناکام رہے۔ آخر ایک روز انہوں نے فیصلہ کیا اور کفار کی مجلس میں وعدہ کیا کہ میں تنہا قریش کے اوپر وارد ہونے والے اس فتنہ کو مٹائے دیتا ہوں،یعنی اس فتنہ کے بانی محمد ﷺ کا کام تمام کیے دیتا ہوں (نعوذ باللہ)
ابوجہل نے سن کر کہا کہ اگر تم نے یہ کام پورا کردیا تو سو اونٹ اور ہزار اوقیہ چاندی نذر کوں گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ مسلح ہوکر شمشیر بدست نکلے اور آنحضرتﷺ کی تلاش و جستجو کرنے لگے۔ راستہ میں سعد بن ابی وقاص ؓ نے پوچھا کہ عمر اس طرح کہاں جاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ محمدﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے جاتا ہوں۔ کیونکہ میراارادہ ہے کہ آج قریش کی مصیبت اور ان کی بیسیوں تدبیروں کو سہل کردوں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا کہ تم بنی ہاشم کے انتقام سے نہیں ڈرتے؟ اور یہ نہیں جانتے کہ محمد ﷺکا قتل کوئی آسان کام نہیں؟ حضر عمرؓ نے کہا کہ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے مجھ کو کسی کا بھی کچھ خوف نہیں ہے۔ پھر سعدؓ سے کہا کہ تم بنی اس کے حمایتی ہو لاؤ پہلے تمہاراہی کام تمام کردوں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا کہ تم مجھ کو اور محمدﷺ کو تو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنے ہی گھر کی خبر لو کہ تمہاری بہن مسلمان ہوچکی ہے اور اسلام گھر میں داخل ہوچکا ہے۔
حضرت عمر ؓ یہ نشترزن جواب سن کر اسی وقت بہن کے گھر کی طرف چل دئیے۔ وہ آنحضرتﷺ کے قتل کی نیت سے چلے تھے۔ راستے میں اپنی بہن کے گھر کی طرف ان کا رخ پھرنا گویا اسلام کی طرف رخ پھرنا تھا۔ بہن کے گھر پہنچے، وہاں حضرت خباب بن الارت ؓ حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ ؓ اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید ؓ کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے تھے۔ ان کے آنے کی آہٹ سن کر حضرت خباب ؓ تو وہیں گھر میں کسی جگہ چھپ گئے اور قرآن مجید جن اوراق پر لکھا ہوا تھا ان کو بھی فوراً چھپا لیا۔ انہوں نے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے تھے؟
پھر فوراً اپنے بہنوئی سعید بن زید ؓ کو پکڑ کر گرادیا اور مارنا شروع کردیا کہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟ بہن اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے آگے بڑھی اور بھائی سے لپٹ گئی۔ اس کشتم کشتا میں ان کی بہن فاطمہ ؓ کے ایسی چوٹ لگی کہ ان کے سر سے خون جاری ہوگیا۔ حضرت عمر ؓ نے بہن اور بہنوئی دونوں کو مارا بہن نے آخر دلیر ی سے کہا کہ ہاں عمرؓ ہم مسلمان ہوچکے ہیں اور محمدﷺ کے فرماں بردار بن چکے ہیں۔ اب جو کچھ تجھ سے ہوسکتا ہے کرلے بہن کا یہ دلیرانہ جواب سنا اور نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ان کو خون میں تربتر پایا۔ اس نظارہ کا ان کے قلب پر کس قدر اثر ہوااور طیش و غضب کے طوفان میں قدرے دھیماپن ظاہرہونے لگا۔
حضر ت عمر ؓ نے بہن سے کہا کہ اچھا تو تم مجھے وہ کلام دکھلاؤ یا سناؤ جو تم ابھی پڑھ رہے تھے اور جس کے پڑھنے کی آواز میں نے گھر میں داخل ہوتے سنی تھی۔ حضرت عمرؓ کا یہ کلام چونکہ کسی قدر سنجیدہ لہجے میں تھا۔ اس لیے ان کی بہن کو اور بھی جرات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ پہلے تم غسل کرو تو ہم تم کو اپنا صیحفہ پڑھنے کے لیے دے سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت غسل کیا غسل سے فارغ ہوکر قرآن مجید کی آیا ت جن اوراق پر لکھی ہوئی تھیں لے کر پڑھنے لگے ابھی چند ہی آیات پڑھی تھیں کہ بے اختیار بول اٹھے:
کیا شیریں کلام ہے اس کا اثر میرے قلب پر ہوتا جاتا ہے۔
یہ سنتے ہی حضرت خباب ؓ جو اندر چھپے ہوئے تھے فوراً باہر نکل آئے اور کہا:
اے عمر ؓ مبارک ہو محمد رسول ﷺ کی دعا تمہارے حق میں قبول ہوگئی۔ میں نے کل آنحضرتﷺ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے کہ الہی عمر بن الخطاب یا ابوجہل دونوں میں سے ایک کو ضرور مسلمان کردے۔پھر خبابؓ نے سورہ طہ کا پہلا رکوع پڑھ کر سنایا۔ حضرت عمر ؓ سورہ طہ کی آیات سن رہے تھے اور رو رہے تھے حضرت عمرؓ نے خبابؓ سے کہا اسی وقت مجھے آنحضرت ﷺ کے پاس لے چلو۔ چنانچہ وہ اسی وقت حضرت عمرؓ کو دارارقم کی طرف لے کر چلے۔ اس وقت بھی ننگی تلوار حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں تھی۔ مگر اب یہ تلوار حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں اس ارادے سے نہ تھی جو بہن کے گھر تک ان کے دل میں تھا۔
دارارقم کے دروازے پر پہنچ کر حضرت عمرؓ نے دستک دی۔ صحابہ کرام ؓ جو اندر تھے انہوں نے حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں شمشیر برہنہ دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ عمر ننگی تلوار لے کر دروازے پر کھڑا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو۔ حضرت حمزہ ؓ بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ آنے دو اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر اڑا دیا جائے گا۔ چنانچہ دروازہ کھولا گیا۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے آنحضرت ﷺ ان کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا او رفرمایا اے عمر ؓ کیا تو باز نہ آئے گا۔ حضرت عمر ؓ نے جواباً عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے یہ سنتے ہی جوش مسرت میں بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ جو اس وقت دارارقم میں موجود تھے اس سے انداز میں اللہ اکبر کہا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج گئیں۔ حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمر ؓ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہوگئی۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہونے کے بعد سیدھے ابوجہل کے گھر پہنچے دروازہ پر دستک دی وہ باہر آئے اور بہ خندہ پیشانی اہلا و سہلا و مرحبا کہا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں مسلمان ہوگیا ہو محمد ﷺ کو رسول اللہ مانتا ہوں۔ یہ سنتے ہی ابوجہل جھلاکر اندر چلا گیا اور یہ بھی واپس چلے آئے۔ مدعا ان کا یہ تھا کہ اس سے بڑے دشمن اسلام کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر دے کر جلاوں۔
حضرت عمرؓ نے مسلمان ہوتے ہی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کو اب پوشیدہ طور پر گھروں میں نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں بلکہ علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنی چاہئیں۔ چانچہ قریش میں سے اول اول جو کوئی مانع ہوا حضرت عمر ؓ نے اس کا مقابلہ کیا پھر بلا روک ٹوک مسلمان خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے اور اسلام مکہ میں علانیہ اور آشکار اطور ظاہر ہوگیا۔ یہ نبوت کے چھٹے سال کے آخر ی مہینے کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر ؓ کی عمر اس وقت33سال کی تھی۔ حضرت عمر ؓ کے مسلمان ہونے کے وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ ملک حبش میں جو مسلمان تھے وہ اس تعداد کے علاوہ تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں