حضرت عمر فاروق ؓ کا انقلاب انگیز نظامِ حکومت کیسا تھا۔

اسلامی فتوحات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا عہد خلافت جنگوں اور فتوحات کا زمانہ تھا۔ دس بارہ برس کی مدت میں اسلامی سلطنت کی حدود بڑی وسیع ہوگئیں۔ مشرق میں افغانستا اور چین کی سرحدوں تک مسلمان فوجیں جانکلیں۔ مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ تک شمال میں انا ضول اور بحرقزوین تک اور جنوب میں ملک حبش تک فتوحات کا یہ سلسلہ مورخین اور مفکرین کے لیے باعث حیرت و استعجاب بن گیاہے۔ دنیا محو حیرت ہے کہ اتنی قلیل مدت میں ایک بے سروسامان قوم کس طرح بڑی بڑی حکومتوں پر چھا گئی۔
حضرت عمر ؓ کے عہد حکومت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ توسیع سلطنت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ ملکی انتظامات کی طرف بھی خاص توجہ دیتے رہے۔
حضرت عمر ؓ کے عہد میں مدینہ منورہ دارلخلافہ رہا اور مسلمانوں کی جمیعت، تنظیم اور مرکزیت مدینہ سے وابستہ رہی۔

طرز حکومت۔
حضرت عمر ؓ کے زمانے میں طرز حکومت شورائی تھا۔ امیر المومنین حضرت فارق ؓ ہر معاملے میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرتے تھے، البتہ مشورہ لینے کے لیے صحابہ کرام ؓ کا انتخاب امیرالمومنین کے ہاتھ میں تھا۔ پھر امیر المومنین کویہ بھی اختیار تھا کہ چائیں تو کسی کی رائے کو پسند کریں اور چائیں تو رد کردیں۔بسا اوقات عمر فاروقؓ مشاورت کے لیے عام مسلمانوں کو مسجد نبوی میں جمع کرکے ان کی رائے دریافت کرتے یا نماز کے وقت جمہور مسلمانوں سے مشورہ کرتے تھے ۔ ہر شخص کو رائے دینے کا حق تھا کبھی ایسا ہوتا کہ جب کوئی بڑ امشکل مسلہ درپیش ہوتا تو حضرت عمر ؓ صرف تیز مزاج نوجوانوں کو بلا کر مشورہ طلب کرتے تاکہ ان کے جوش جوانی اور تیز طبع سے فائدہ اٹھائیں۔
عام مشورے کے بعد رائے درست معلوم ہوتی تو اس پر عمل کرتے، ورنہ خاص مجلس مشاورت منعقد کرکے مسلے کے ہر پہلو پر بحث و تمیحض کرکے کسی نتیجہ پر پہنچتے تھے۔
اسی طرح آپ ملکی اور جنگی معاملات میں بھی ایل الرائے لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ نیز اپنے سپہ سالاروں اور والیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ بھی ہرمعاملے میں مشورہ کرنے کے بعد کوئی قدم اٹھایا کریں۔ حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں مشورے کو نظام حکومت میں اساسی اور بنیادی اہمیت حاصل تھی۔
عہد فاروقی میں مسجد نبوی ﷺ اسمبلی حال اور سیکرٹریٹ کا کام دیتی تھی۔ ماتحت حکمران صوبائی والیوں، محصلین اور سپہ سالاروں کے نام تما ہدایات مسجد نبوی ﷺ سے جاری ہوتی تھیں۔ آپ کے طرز حکومت کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ آپ مسلمان قوم کی رائے اوراجازت کے بغیر اپنی ذات پر کوئی چیز خرچ نہ کرتے تھے۔ ایک بیماری میں شہد کی ضرورت پیش آگئی، بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن جب تک قوم کی اجازت نہ لے لی،شہد استعمال نہ کیا گیا۔
حضرت عمر ذاتی طور پر رعایا کے حالات میں دلچسپی لیتے تھے۔ غریبوں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تھے۔ عوام کو اجازت تھی کہ برسراجلاس خلیفہ وقت سے باز پرس کرسکیں۔

صوبائی نظام۔
آپ نے دس برس کے عہد خلافت میں نہایت وسیع نظام حکومت قائم کردیا ملک کو آٹھ صوبائی حکومتوں میں بانٹ دیا۔ مکہ، مدینہ، شام، مصر، جزیرہ، بصر ہ، کوفہ اور فلسطین۔
صوبے میں کئی عہدے دار ہوتے تھے مثلاً حاکم صوبہ، شہری میر منشی، فوجی میر منشی، افسر مال، پولیس افسر، قاضی اور خزانچی اضلاع میں صرف افسر مال، خزانچی اور قاضی ہوتے تھے۔

افسروں کا انتخاب و نگرانی۔
آپ افسروں کے تقرر کے معاملے میں بڑے محتاط تھے۔ قابل اعتماد اور لائق ترین لوگوں کو عہدے سونپتے تھے۔ آپ کا یہ دستور تھا کہ تقرر کے وقت ہر عامل کو ایک پروانہ دیتے تھے، جس میں عامل کے اختیارات کی تصریح ہوتی تھی۔ پھر یہ پروانہ اس عامل کے علاقے میں مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا، تاکہ وہ اپنے حدود اختیارات سے تجاوز نہ کرسکے ہر عہد ے دار سے یہ عہد لیا جاتا تھا۔
1۔ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا۔
2۔ باریک کپڑا نہ پہنے گا۔
3۔ چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا۔
4۔دروازوں پر دربان مقرر نہ کرے گا۔
5۔ حاجد مندوں کے لیے اپنا دروانہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ اس میں تن آسانی اور غرور حکومت پیدا نہ ہو لوگوں سے بے رخی نہ برتے۔ تمام صوبائی حاکموں کو ہدایت تھی کہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں حاضر ہوا کریں تاکہ صوبائی معاملات اور نئے مسائل کے متعلق مشورہ کرکے حکومت کی پالیسی وضع کی جائے۔ حضرت عمر ؓ اپنے عہدے داروں کا بڑی سختی سے محاسبہ کیا کرتے تھے ان کے اعمال اور برتاو کی کڑی نگرانی کیا کرتے تھے۔۔

محکمہ عدالت۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں محکمہ عدالت کو الگ کردیا تھا نہایت عادل اور متقی لوگوں کو جج اور قاضی مقرر کرتے تھے۔ ہر ضلع اور ہر صوبہ میں یہ حکم دے رکھا تھا کہ ہر شہری کو عدل وانصاف مہیا کیا جائے۔صرف معزز اور دولت مند لوگوں کو قاضی بناتے تاکہ وہ رشوت کی طرف مائل نہ ہوں۔ آپ تلقین کرتے تھے کہ معمولی جھگڑوں کو آپس میں طے کرلیا کریں قاضی کے سامنے صرف وہی مقدمات لایا کریں جو بڑے اہم ہوں۔مقدمات کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق کریں اگر کتاب و سنت میں کوئی مثال نہ ملے تو اجتہاد سے کام لیں۔ابتدا میں قاضی گھر میں عدالت قائم کرتا تھا لیکن بعد میں مسجد میں بیٹھ کر مقدمات کے فیصلے کرنے لگا۔

جیل خانے۔
عہد فاروقی سے پہلے قید خانوں کا رواج نہ تھا، لیکن حضرت عمر ؓ نے مجرموں کو سزا دینے کے لیے جیل خانے بنائے۔

محکمہ ڈاک۔
حضرت عمر ؓ نے سرکاری خطو ط، فوجی مراسلات و پیغامات اور مال غنیمت کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے محکمہ ڈاک قائم کیا تیز رفتار اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سرکاری پیغامات اور خطوط بھیجنے کا انتظام کیا گیا تھا۔

محکمہ پولیس۔
حضرت عمر ؓ نے شہریوں کے حفاظت کے لیے اور قیام امن کی خاطر محکمہ پولیس قائم کیا اس عہد میں اس کا نام احداث تھا بعد میں شرطہ کہلانے لگا آج بھی عرب میں پولیس کو شرطہ ہی کہتے ہیں۔ شہریوں کی حفاظت اور قیام امن کے علاوہ احتساب کا کام بھی پولیس کے ذمے تھا۔

محکمہ فوج۔
حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت سے پہلے فوج کا کوئی باقاعدہ محکمہ موجود نہ تھا سن ۱۵ ہجری میں حضرت عمر ؓ نے ولید بن ہشام کے مشورے سے محکمہ فوج قائم کرکے اسے منظم اور وسیع کیا سب مجاہدوں کے نام رجسٹر میں درج کرکے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ ہر شہر میں فوجی چھاونی کا آغاز کیا گیا فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ایک باقاعدہ فوج تھی جو ہر وقت محاذ جنگ پر ہتی تھی دوسری رضا کار فوج تھی جو بوقت ضرورت طلب کی جاتی تھی تنخواہیں دونوں فوجوں کو ملتی تھی۔

محکمہ دیوان۔
عہد فاروقی سے پہلے جو دولت آتی سب خرچ کردی جاتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے آمدو خرچ کا باقاعدہ حساب رکھنے کے لیے دفتری نظام کی داغ بیل ڈالی۔

سن ہجری کا آغاز۔
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں تاریخ شمار کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا عام طور پر کسی بڑے واقعہ یا حادثہ اصحاب فیل کا حملہ یا جنگ فجار سے سال اور تاریخ کا شمار ہوتا تھا۔ صدیق اکبر ؓ کے زمانہ خلافت تک یہی تھا حضرت علی ؓ کے مشورے سے سن ہجری کا آغاز ہوا اسلامی تقویم (کیلنڈر) کی ابتداء حضرت محمد رسول کریم ﷺ کی ہجرت والے سال سے ہوئی اور اسی نسبت سے یہ سن ہجری کہلاتا ہے۔

رفاہ عامہ کے کام۔
زراعت کو ترقی دینے اور شہری ضروریات کے پیش نظر کئی نہریں کھودیں گئیں اس کی بدولت گھر گھر پانی پہنچا بڑے بڑے شہروں میں مسافر خانے تعمیر کوائے گئے مکے اور مدینے کے درمیان سن ۱۷ ہجری میں تمام منزلوں پر چوکیاں، سرائیں اور حوض تعمیر کرائے گئے۔

بیت المال۔
حضر ت عمر ؓ نے دارلخلافہ (مدینہ) اور تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت المال تعمیر کرائے اور نہایت دیانتدار اور لائق افسر بیت المال کے نگران مقرر کیے۔ ہرصوبے کے اخراجات کے بعد جو رقم بچ جاتی بیت المال میں جمع کرائی جاتی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں