حضرت عمر فاروق ؓ کے دورمیں جب طاعون آیا تو آپ نے وبا پر کس طرح قابو پایا۔؟

سن 17ھ کے آخری ایام میں عراق، شام اور مصر میں طاعون نمودار ہوا اور سنہ 18ھ کی ابتداء سے اس وبا ء میں اشتداد کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ساتھ ہی سرزمین عرب میں قحط عظیم برپا ہوا۔ غلہ کی کمی سے تمام ملک میں بڑی پریشانی پھیلی۔ فاروق اعظم ؓ نے قحط کے دور کرنے اور لوگوں کی مصیبت کو ہلکا کرنے کی کوشش میں حیرت انگیز سرگرمی اور جفاکشی کا اظہار فرمایا۔ صوبہ جات ممالک اسلامیہ کے عاملوں کے پاس احکام بھیجے گئے کہ اہل مدینہ کے لیے غلہ جہاں تک ممکن ہو روانہ کریں۔اس حکم کی تعمیل میں حضرت عمرو بن العاص ؓ نے مصر سے بیس جہاز غلہ کے بھیجے۔ ان جہازوں کے آنے کی خبر سن کر فاروق اعظم ؓ خود بندرگاہ تک جو مدینہ سے تین منزل کے فاصلہ پرتھی تشریف لے گئے۔ غلہ کو جہازوں سے اتروا کر ایک محفوظ مکان میں رکھا گیا اور ضرورت مندوں کی فہرستیں مرتب کرا کر غلہ ان میں تقیسم کرایا گیا۔ فاروق اعظم ؓ نے عہد کیا تھا کہ جب تک قحط کی بلا لوگوں پر مسلط ہے ہم گھی اور دودھ ہر گز استعمال نہ کریں گے۔ اس خشک سالی کو دور کرنے کے لیے فاروق اعظم ؓ اہل مدینہ کو ہمراہ لے کر نماز استسقادہ اداکرنے کے لیے نکلے، دعا مانگی، دعا ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔ شام میں طاعون کی وباء کے نمودار ہونے کا حال سن کر فاروق اعظم ؓ مدینہ منورہ سے خود شام کی اسلامی فوجوں کی طرف روانہ ہوئے۔ مقام سرغ میں پہنچے تھے کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ اور دوسرے سرداران لشکر نے بطریق استقبال کیااور آگے بڑھ کر ملاقات کی اور بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ آپ اب آگے طاعونی علاقے میں تشریف نہ لے جائیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس جگہ وبا پھیلی ہو وہاں نہ جاو اور اگر اتفاق سے اس مقام پر وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہوتو وہاں سے نہ بھاگو۔ اس حدیث کو سن کر فاروق اعظم ؓ مدینہ منورہ کی طرف واپس ہوئے اور سرداران لشکر کو تاکیدی طور پر ہدایت کر آئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس مرض کے متعلق انسدادی تدابیر کام میں لائیں۔ ابوعبیدہ ؓ لشکر اسلام کو لیے ہوئے نشیبی علاقہ میں مقیم تھے فاروقی حکم کے موافق وہاں سے کوچ کرکے مقام جابیہ میں جس کی آب وہوا اچھی تھی لشکر اسلام کو لے آئے۔ یہاں آکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ مرض طاعون میں مبتلا ہوئے۔ جب مرض کی شدت اور زندگی سے مایوسی ہوئی تو حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اپنی جگہ حضر معاذ بن جبل ؓ کو سالار لشکر مقرر فرمادیا اور تھوڑی دیرکے بعد فوت ہوگئے۔ معاذ بن جبل ؓ بھی زیادہ دنوں زندہ نہ رہ سکے۔ اول ان کے بیٹے نے اسی مرض میں مبتلا ہوکر وفات پائی پھر وہ بھی بیمار ہوئے۔ انہوں نے مرنے سے بیشتر عمرو بن العاص ؓ کو اپناجانشین مقرر فرمایا۔ عمربن العاص ؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ کی وفات کے بعد لشکر اسلام کو لے کر پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ گئے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں نے الگ الگ چوٹیوں پرقیام کیا۔ چند روز کے بعد اس وبا کا زو ر شور کم ہوگیا۔ مصر کی فتح اس طاعون اور وبا سے یقینا پہلے ہوچکی تھی۔ اس وبا کے ایام میں حضرت عمر وبن العاص ؓ مصر سے غلہ مدینہ کی جانب روانہ کرنے کے بعد حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پاس شام کے ملک میں اس لیے تشریف لے آئے تھے کہ فاروق اعظم ؓ کے حدود شام میں تشریف لانے کا حال ان کو معلوم ہوچکا تھا اور فاروق اعظم ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر مصر کے حالات بیان کرنا اور انتظام ملکی کے متعلق فاروق اعظم ؓ سے ہدایات کا حاصل کرنا ضروری تھا۔ فاروق اعظم ؓ کی واپسی کے بعد حضرت عمرو بن العاص ؓ اس وبا کی مصیبت اور حضرت ابوعبیدہ ؓ و حضرت معاذ کی وفات کے سبب فورا مصر کو نہ جاسکے تھے۔ اسی وبامیں یزید بن ابی سفیان جو دمشق کے عامل تھے فوت ہوئے۔ ان کے فوت ہونے کی خبر سن کر فارو ق اعظم ؓ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان ان کے بھائی کو دمشق کا عامل مقرر فرمایا۔ اسی انتظام میں شرجیل بن حسنہ ؓ علاقہ اردن کے عامل مقرر ہوئے۔ اس وبا میں بڑے بڑے معزز بزرگ صحابی فوت ہوئے اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ جو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری تھا۔ اس لیے رک گیا کہ لشکر اسلام اپنی ہی مصیبتوں میں گرفتار تھا۔ اسی سنہ 18ھ میں فاروق اعظم ؓ نے شریح بن حرث کندی کو کوفہ کا اور کعب بن سوار ازدی کو بصرہ کا قاضی مقرر فرمایا۔ اسی سال فاروق اعظم ؓ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کی راحت کے لیے مکانات اور کنویں تعمیر کرائے۔ خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع کی اور لوگوں کے مکانات خرید خریدکر صحن کعبہ میں شامل کئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں