حضور نبی اکرم ﷺ کے سیاسی تدبرو بصیرت کی چند بہترین مثالیں۔

حضرت رسول مقبول ﷺبے نظیر سیاسی تدبر اور حکمت و دانش کے مالک تھے۔ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تنگ کیا تو آپ ﷺ نے ہجرت کے لیے ملک حبش کا انتخاب فرما کر بہت سیاسی بصیرت و تدبر کا ثبوت دیا۔ اس وقت اور بھی علاقے تھے خود جزیرہ عرب کے بہت سے قبائل تھے۔ نجران اور یمن بھی موجود تھے ملک شام و مصر بھی تھے مگر آپ ﷺ نے ان میں سے کسی کو پسند نہ فرمایا۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی خطرہ نظر آیا صرف حبش کا علاقہ ایسا تھا کہ آپﷺ کی سیاسی بصیرت نے وہاں کوئی خطرہ نہ دیکھا۔
چنانچہ واقعات نے آنحضرت ﷺ کے سیاسی تدبر اور حسن انتخاب کی داد دی آپﷺ کی سیاسی حکمت عملی بھی کچھ کم حیرت افزا نہیں۔ آپﷺ نے مکہ چھوڑ کر مدینہ کی راہ لی تو جو راستہ اختیار کیا وہ بھی حیرت انگیز اور تعجب خیز ہے۔ اول تو آپﷺ شاہراہ کو چھوڑ کر ایک غیر معروف راستے پر گامزن ہوئے۔ بحیرہ احمر کے بالمقابل مغربی راستہ پسند فرمایا۔ پھر کبھی اِدھر مڑ جاتے کبھی اُدھر۔ کبھی آپ ﷺ سمندر کے کنارے کنارے چلتے اور کبھی بہت دو ر ہٹ کر اندرون ملک میں نکل جاتے۔ مختلف وادیوں اور پہاڑی راستوں کوطے کرتے پر پیچ راہوں سے گزرتے اور راستے بدلتے ہوئے آپ ﷺ وادی عقیق میں داخل ہوئے اور وہاں سے قباء میں جا پہنچے۔ مقصد یہ تھا کہ تعاقب کرنے والا دشمن نشان پاکر سراغ نہ لگا سکے۔
مدینے پہنچ کر آپﷺ نے سب سے پہلے معاہد ہ مدینہ کی داغ بیل ڈالی۔ اس معاہدہ کی رو سے مسلمانوں کو ایک مستقل اور الگ قوم قرار دیا۔ ان کے حقوق و فرائض اور باہمی تعلقات کی وضاحت کردی۔ پھر اسی معاہدے کی رو سے مدینے کے یہودیوں کے حقوق و فرائض متعین کیے۔ درحقیقت یہ معاہدہ ایک جماعتی منشور تھا جس کے ذریعے اسلامی حکومت کی بنیاد قائم کی گئی اور مختلف شہری اور دیہاتی باشندوں کے حقوق کی وضاحت اور تعین کردی گئی۔ ایک طرف تو یہ معاہدہ اسلام کے سیاسی نظام میں پہلا سنگ میل ہے اور دوسری طرف آنحضرتﷺ کے حسن تدبر اور سیاسی بصیرت کا آئینہ دار۔ جریرہ عرب کیا، بلکہ ساری دنیا میں اس منشور نے نئے سیاسی فکر و نظر کی بنیاد رکھی۔ یعنی خاندانی اور وطنی تعلقات کو توڑ کر دینی اور فکری تعلقات پر حکومت کی بنیاد اٹھائی گئیں۔
رنگ و نسل کے امتیازات مٹا کر دین اسلام اور عقیدہ توحید کو قومی وحدت کا ذریعہ ٹھہرایا۔ خاندانی شرافت اور قبائلی فخر وغیرہ کا خاتمہ کرکے ذاتی کردار اور انفرادی اعمال کو شرافت و عزت کا معیار قرار دیا۔ مدینے میں قدم رکھتے ہی آپ ﷺ نے اپنے سیاسی تدبر سے مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دیا۔ مختلف عناصر مدینہ کی شہری آزادی کا اعلان فرمایا: مسلمانوں اور یہودیوں کے شہری حقوق و فرائض کی حدود مقرر کرکے اسلامی نظام حکومت کی بنیاد رکھی۔
آنحضرت ﷺ کے سیاسی تدبر و بصیرت کی بہترین مثال صلح حدیبیہ سے ملتی ہے مشرکین مکہ نے آپ ﷺ سے صلح نامہ کی شرائط طے کرکے اس بات کا اقرار کیا کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہے۔ اسلام ایک قوت او رطاقت کا نام ہے آنحضرت ﷺ ایک جماعت کے قائد اور حکمران ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے قریش مکہ نے صلح نامہ پر دستخط کرکے کم از کم اتنا ضرور اعتراف کیا کہ آپﷺ ان کے برابر کے اقتدار و حکومت کے مالک ہیں۔
بدترین دشمنوں سے عفو در گز ر کرکے ان سے بہترین سلوک اور تالیف قلوب آپﷺ کے سیاسی تدبر کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں