خلافت راشدہ کا نظام کیا ہے۔۔؟

خلیفہ کا مفہوم۔
حضرت محمد ﷺ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت کسی شخص کو حکومت کے انتظامات کے لیے اپنا جانشین نامزد نہ فرمایا۔ بلکہ جانشینی کا مسلہ جمہور مسلمانوں کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ جس شخص کو پسند کریں، اپنا حکمران منتخب کرلیں۔اس جانشینی کو خلافت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوکہ حضرت ابوبکر ؓ نے مسلمانوں کا امیر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا تھا کہ میں رسول خدا ﷺ کا خلیفہ یعنی جانشین ہوں۔ یہیں سے خلیفہ اور خلافت کی ابتداء ہوئی۔

خلافت کا مفہوم۔
اصطلاحی طور پر ریاست کا یہ مفہوم ہے کہ دینی اور دنیوی امور کے انتظامات کے لیے ایک ایسی جمہوری ریاست قائم کی جائے جس میں نبی کریم ﷺ کی پوری نیابت اور نمائندگی ہو۔ اس ریاست کے رئیس کو خلیفہ یعنی رسول ﷺ کا جانشین اور قائم مقام کہتے ہیں۔ خلیفہ مسلمانوں کی تمام دینی اور دنیوی ضروریات کا کفیل اور نگران ہوتا ہے۔ نیابت رسول ﷺ کی وجہ سے رعایا کا فرض ہے کہ خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور خلیفہ کا فرض ہے کہ امن و امان قائم کرکے شریعت نافذ کرے اور دین کو پوری طرح جاری او ر قائم کرے۔ خلیفہ مسلمانوں کا سیاسی اور روحانی قائد اور امیر ہوتا ہے۔

خلفاء اربعہ۔
رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کے چار جان نثار ساتھیوں نے باری باری اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ یہ چار وں صحابی رسول کریم ﷺ کے نائب، خلیفہ اور جانشین مشہور ہوئے۔ پہلے حضرت ابوبکر ؓ پھر حضرت عمر ؓ پھر حضرت عثمان ؓ ااوراس کے بعد حضرت علی ؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ چار وں خلفاء کا عہد تقریباً تیس برس کا تھا۔ ان خلفاء کو خلفائے راشدین اور خلفائے اربعہ کہتے ہیں۔یہ تاریخ اسلام میں زریں عہد کہلاتا ہے۔

جمہوری طریقہ انتخاب۔
خلافت راشدہ کے نظام حکومت کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ ہر خلیفہ جمہوری طریق سے منتخب کیا جاتا تھا۔ اگرچہ وہ طریق آج کل کے جمہوری طریقہ انتخاب سے قدرے مختلف تھا۔ لیکن یہ پونے چودہ سوسال پہلے کی بات ہے اس ماحول اور زمانے کو ملحوظ خاطررکھتے اس انتخاب کو جمہوری قرار دینا بالکل بجا ہے۔ اس انتخاب میں یہ بات نمایاں ہے کہ حکومت کو وراثت نہیں بنایا گیا۔ بلکہ جمہور اہل اسلام کے پیش نظر بہترین ترین آدمی کو اس بار کے اٹھانے کے لیے مجبور کیاگیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کو خلافت سے محروم قرار دیا تاکہ وراثت کا سوال ہی پیدا نہ ہو ا۔

عہدہ وزارت۔
اگرچہ خلفائے راشدین کے زمانے میں وزارت اوروزیر کے الفاظ سیاسی طور پر مروج نہ تھے۔ لیکن معنوی طور پر یہ عہدہ موجود تھا۔ یوں کہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت میں عہدہ وزارت حضرت عمر ؓ کے سپرد تھا اور خلافت فاروقی میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ وزیر کے فرائض انجام دیتے تھے۔

عہدہ کا تب۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں کاتب کا عہدہ بھی موجود تھا۔ نظام حکومت میں خلیفہ کا ہاتھ بٹانے کے لیے کاتب ایک اہم منصب دار تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ کے کاتب حضرت عثمان ؓ بن عفان تھے۔ حضرت عمر ؓ نے زید بن ثابت ؓ اور عبداللہ بن ارقم ؓ کو اپنا کاتب مقرر فرمایا۔

خلفاء کا ذاتی کردار اور شخصی زندگی۔
خلفاء میں شاہانہ جاہ و جشم کی کوئی بات نہ تھی خلیفہ کی زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی۔ وہ ہر کام اپنے ہاتھ سے کر لیتا تھا۔ کھانے، پینے اور پہننے میں سادگی کا خیال رکھتا۔ رعایا کے عام افراد کی طرح بازاروں اور سڑکوں پر پیدل چلتا تھا۔ ہر شخص کو خلیفہ تک رسائی تھی بلکہ خلیفہ خود گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتا۔ رعایا کی دیکھ بھال میں خلیفہ ذاتی طور پر دلچسپی لیتا۔ خلفاء مسلمانوں کی اجازت کے بغیر اپنی ذات پر کوئی خرچ نہ کرتے تھے۔

عدالت۔
حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت تک انتظامیہ اور عدلیہ دونوں محکمے اکٹھے تھے۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرکے عدلیہ کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے عدلیہ کو براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت کردیا اور عدالتوں کے لیے قاضیوں اور ججوں کو مقرر کرتے ہوئے دیگر خوبیوں کے علاوہ خاندانی و جاہت و شرافت اور دولت مندی کا بھی لحاظ رکھا جاتا تھا اور ان کے لیے معقول تنخواہ مقرر کردیں تاکہ کسی حقیر جذبے کے تحت کے وقار کو نقصان نہ پہنچے یعنی رشوت وغیرہ سے بچے رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں