دنیا کے عظیم فاتح سکندر اعظم کی وصیت۔

دنیا کا عظیم فاتح سکندر اعظم جو صرف 32سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کھڑی کرنے والا نوجوان بادشاہ تھا سکندر اعظم بچپن سے ہی ایسی عادات اور خصوصیات کے مالک تھے کہ دیکھنے والے کہتے تھے کہ یہ بچہ بڑا ہوکر دنیا کا عظیم فاتح بنے گا سکندر اعظم نے 12سال کی عمر میں ہی گھڑ سواری شروع کردی تھی سکندر اعظم کے والد کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کردیا تھا اس وقت سکندر اعظم کی عمر 20سال تھی والد کے قتل ہونے کے بعد نئے بادشاہ کے لیے دوڑ شروع ہوگئی تو سکندر اعظم نے اپنے تمام حریفوں کا صفایا کرکے خود والد کا مقام سنبھالا یوں 20سال کی عمر میں سکندر اعظم بادشاہ بنا سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کے ساتھ 12ہزار میل کا فاتحانہ سفر کیا سکندر اعظم کے عروج کے زمانے میں ان کی سلطنت مغرب سے لیکر مشرق تک پھیلی ہوئی تھی یہاں تک کہ آج کا افغانستان، پاکستان، عراق اور مصر یہ سب ممالک ان کی سلطنت کا حصہ تھے۔ سکندر اعظم کا شمار تاریخ کے متاثر کن اور ماہر ترین فوجی کمانڈروں میں کیا جاتا ہے۔ سکندر اعظم کو برطانیہ کی ریڈنگ اولپمیئس ان کے والد فلپ دوئم کی تیسری یا چوتھی بیوی تھیں اور اس لحاظ سے سکندر اعظم کو اعلیٰ تعلیم دلوائی گئی۔ سکندر اعظم جب 13سال کے تھے تو ان کو تعلیم دینے والے ارسطو جیسے عظیم فلسفی شامل تھے۔ ارسطو کی شاگردی کے اثرات سکندر اعظم پر تاحیات رہے ارسطو نے یونانی اشرافیہ کے ایک بچے کو بہترین حکمران بنایا اور انہیں اعلیٰ ترین تعلیم دی اور ان کی تربیت کی سکندر اعظم جس طرح سے یونانی ریاستوں سے معاملات کرتے تھے اس میں ارسطو کی دی ہوئی تعلیم کا ہی اثر تھا۔
سکندر اعظم کے والد بھی انتہائی قابل حکمران تھے اور انہوں نے اپنی فوج میں انتہائی تجربہ کار جرنیل تیار کیے اور والد کے بعد یہ طاقت ور فوج ایک ذہین اور قابل شخص کے ہاتھ میں تھی یہی وجہ تھی کہ سکندر اعظم دشمن کو اس کے علاقے میں جاکر مارتے تھے اور فتح یاب ہوکر آتے تھے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ بادشاہ داریوش سوئم کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی جو پوری سلطنت میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کی تعداد اس دور کے مطابق 25لاکھ کے قریب تھی جس میں 10ہزار فوج اسپیشل فوج تھی جہاں دوسری فوج محاذ کو قابو نہیں کرسکتی تھی تو پھر وہ دس ہزار کی رجمنٹ وہاں پہنچتی تھی جب سکندر اعظم کی جنگ بادشاہ داریوش سوئم سے ہوئی تو اس وقت سکندر اعظم کی فوج کی تعداد صرف پچاس ہزار تھی مگر سکندراعظم کی انتہائی موثر اور ذہین حکمت عملی کی بدولت بادشاہ شکست سے دوچار ہوا۔
سکندرا عظم جب دنیا سے رخصت ہوا تو جاتے وقت انہوں نے وصیت کی کہ جب میرا جنازہ نکلے تو فوج کا ایک بڑا لشکر جنازے کے آگے ہو اور جنازے کے دائیں جانب علماء کرام ہو اور بائیں جانب امراء اور پیچھے فقراء کا لشکر ہو دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے نیچے ایک سیب ہو اور بایاں ہاتھ خالی ہو۔
یہ دنیا کے عظیم فاتح کا وصیت نامہ تھا اس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے فوج کا بڑ الشکر آگے ہونے کے باوجود موت آگئی یعنی میرا لشکر مجھے مرنے سے نہیں بچا سکا اس کے بعد علماء کا لشکر دائیں جانب ہے مگر علماء موت کو نہ ٹال سکے۔ امراء کا لشکر بائیں جانب ہے سکندر اعظم کی ساری دولت ملکر بھی موت کو نہ خرید سکی۔ جنازے کے پیچھے فقراء کی بے بسی اور آئیں دعائیں بھی موت کو نہ روک سکی۔ دائیں ہاتھ کے نیچے سیب کا مطلب ہے کہ پوری دنیا کی بادشاہت اور سلطنت رکھنے والا بائیں ہاتھ خالی ہونے کا مطلب ہے خالی ہاتھ دنیا سے آئے اور آج خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے جارہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں