روبوٹ کو تخلیق کار بنانے کی کوششیں کامیاب ہوپائیں گی۔؟

انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام دلوانے والے دو اہم اوصاف ’نطق‘اور ’ذکاوت کی خوبیاں ہیں جو ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہم ہیں انسان کا ذکاوت کے بغیر انسان کا نطق کسی کام کا نہیں۔انسان نے اپنی ذکاوت اور نطق کی طاقت ہی بنا پر حیوانات پر قابو پا رکھا ہے۔ اسی ذکاوت کی بنا پر انسان نے آج تک بے شمار اوزار آلات اور مشینیں بنا ڈالی ہیں لیکن موجودہ دور میں انسان ایسی خود کار مشینیں بنار ہا ہے جو خود کار نہیں ہیں بلکہ خود اندیش بھی ہیں۔ ایسی خود اندیش مشینوں کے لیے انسان نے مصنوعی ذہانت سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ یہ ایجادات ابھی گھٹنوں گھٹنوں چل رہی ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ یہ اب رکنے والی نہیں اور کچھ انسان تو اسے ویسے بھی گھبراہت کا شکار ہیں۔ 1818کی بات ہے جب تخلیق کیے جانے والے کردار وکٹر فرینکینسٹائن کی طرح جو ابتداء میں تو ایک معصوم سا کردار تھا جو استفسار کرنے والا ذہن اور سائنسی ترقی میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن بعد میں اس کے اندر متکبرانہ سوچ پیدا ہوئی جو اس کے خالق کے لیے بھی خطرہ بن گئی۔
مصنوعی ذہانت کی اصطلاع 1956ء میں جان مک کار نے پیش کی تھی۔ جس کی تعریف ذہین مشین بنانے کی سائنس اور انجینئرنگ کے طور پر کی گئی ہے۔ آج کے دور میں انفارمیشن سسٹم میں اور خاص طور پر فیصلہ سازی میں مصنوعی ذہانت کے نظام کا استعمال زیادہ اہم ہوگیا ہے۔طب کے میدان میں علم کے پھیلاو اور تشخیص اور علاج سے متعلق فیصلوں کی پیچیدگی کے باعث دوسرے لفظوں میں انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے ماہرین کی توجہ طبی امور میں فیصلہ سازی کے لیے بھی اس نظام کے استعمال کی طرف راغب کرتی ہے۔ اسی وجہ سے طب میں مختلف قسم کے ذہین نظاموں کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی وجہ سے آج طب میں طرح طرح کے ذہین نظاموں کے اثرات کا مطالعہ کیا جارہاہے۔
روز مرہ زندگی میں کمپیوٹر اور روبوٹس کی افادیت کو دیکھ کر ٹیکنالوجی کے ماہرین مصنوعی ذہانت سے ادب جیسی تخلیقی سرگرمیوں کے تجربات میں بھی مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں آسٹریلیائی مصنف ڈینئیل کیل مین نے روبوٹ کی مد د سے ایک کہانی لکھنے کی کوشش کی تو ان کے ساتھ عجیب و گریب چیزیں پیش آئیں، جس کے دوران انہیں روشن امکانات اور تاریک خدشات کا مشترکہ تجربہ ہوا۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب یا آرٹ تخلیق کرنا ایک ایسا خواب ہے جس کی تکمیل ناممکن سی نظر آتی ہے لیکن اگر اس خواب کو تعبیر مل گئی تو انسانوں پر روبوٹس اور مشینوں کی حکومت کا وہ ڈراونا خواب بھی پورا ہوسکتا ہے جو ہم نے اب تک فلموں اور ڈراموں میں دیکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں