سلطان سنجر سلجوقی کون تھا۔؟

سلطان محمد کے بعد اس کا بھائی سنجر چوبیس سال سے خراسان کا حاکم چلا آرہا تھا سلجوقیوں کا سلطان اعظم قرار پایا اور بغداد میں بھی اس کے نام سے خطبہ پڑھا گیا۔ سلطان محمد کے بیٹے محمود نے پہلے پہل اطاعت سے انکار کردیا مگر سنجر نے اس پر فتح یاب ہوکر عراق کا ملک اس کو واپس دے دیا۔ اس وقت سے سلطان سنجر کے زیر سایہ عراق میں سلجوقیوں کا ایک الگ خاندان قائم ہوا جو سلاجقہ عراق کے نا م سے مشہور ہیں۔ خلفاء بغداد کا براہِ راست ان ہی سے سروکار رہا۔
سلطان سنجر کی عمر کا اکثر حصہ باغیوں کی سرکوبی اور مخالفوں کے مقابلے میں گزرا۔سلطان نے سن ۵۲۵ہجری میں دریائے جحیون کو عبور کرکے احمد خان والی سمر قند کو مغلوب کیا۔ خوارزم کے حاکم اتسز نے بار بار بغاوت کی اس کو زیر کرنے کے لیے سلطان کو تین بار فوج کشی کرنی پری اور آخر کار اسے مطیع بنانے میں کامیاب ہوا۔ اسی اثناء میں غور کے بادشاہ حسین بن حسن جہاں سوز نے خراسان پر حملہ کیا۔ مگر سلطان سنجر سے شکست کھائی اور اس کی باجگزاری قبول کی۔
سنجر کو اپنی آخری عمر میں غزوہ قوم کے ترکمانوں سے بڑی زک اٹھانی پڑی انہوں نے خراسان پر حملہ کرکے سنجر کو شکست دی اور اسے قید کرلیا اور خراسان کے اکثر شہروں کو لوٹ کر تباہ کردیا۔ سنجر نے آخر کار ان کی قید سے رہائی پائی مگر اپنے ملک کی تباہی کو دیکھ کر جس پرا س نے ساٹھ سال کے قریب حکومت کی۔ اسے اتنا رنج ہوا کہ وہ سن 552ہجری بمطابق 1152عیسوی میں اسی غم کوفت میں مر گیا۔ انتقال کے وقت سلطان سنجر کی عمر 73سال کی تھی۔

سلاجقہ کی متفرق شاخیں :
ملک شاہ کی وفات پر اس کی اولاد میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور سلاجقہ کی مختلف شاخوں نے مملکت کے حصوں میں الگ الگ حکومتیں قائم کرلیں۔ یہ حکمران سلطان سنجر کے عہد تک سلطان اعظم کی بزرگی تسلیم کرتے رہے۔ مگر اس کی وفات کے بعد وہ عملی طور پر خود مختیار ہوگئے ان شاخوں میں سے کرمان، عراق، شام اور ایشیائے کوچک (روم) کے سلجوقی حکمران مستقل حیثیت رکھتے ہیں، خوارزم شاہیوں نے مشرق کی طرف سے بڑھ کر سلاجقہ کو ایران سے بے دخل کردیا۔ باقی علاقوں میں سلاجقہ کے اتابیگ افسروں نے ان کی جگہ لے لی۔ صرف ایشیائے کوچک میں سلاجقہ روم کی حکومت عثمانی ترکوں کی آمد سن 700ہجری سن 1300عیسوی تک قائم رہی۔

اتابیگ :
سلجوقی سلاطین کا یہ دستور تھاکہ وہ معرکہ او ر قابل اعتماد امراء کو اپنی اولاد کے لیے بچپن ہی سے اتالیق مقرردیتے تھے۔ یہ امراء جو اتابیگ کہلاتے تھے شہزادوں کی تربیت کرتے اور ان کے مفاد میں ہر طرح سے کوشاں رہتے تھے۔ جب کوئی سلطان انتقال کر جاتا تو ہر ایک امیر کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے شہزادے کے لیے تاج و تخت حاصل کرے تاکہ نائب السلطنت بن کر ملک پر حکمرانی کرسکے۔
چنانچہ سلاجقہ کی خاندانی رشک و رقابت اور امراء کے ساز باز سے وارثان سلطنت آپس میں لڑتے، اکثر سلجوقی سلاطین عین عالم شباب میں راہی ملک بقاء ہوئے۔ا س لیے ان کی نوعمر جانشینوں کے اتابیگوں کو اختیارات ِحکومت استعمال کرنے کا خوب موقع ملا اور امورِسلطنت میں ان کا اثر ورسوخ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ سلجوقیوں کے کمزور ہوتے ہی یہی اتابیگ نائب السلطنت سے صاحب السلطنت بن گئے، اور اتابیگ ملک یا شاہ کا لقب کرکے مستقل خاندانوں کے بانی ہوئے۔ چنانچہ سلطان تُتش پسر الپ ارسلان کے آزاد کردہ غلام طغتگین نے دمشق میں عماد الدین زنگی نے الجزیرہ میں ارتوق نے دیار بکر میں ایلد غزنے آزربائیجان میں مستقبل حکومتیں قائم کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں