شاہ محمود قریشی نے ’سی این این‘ میں کیا باتیں کی

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز سی این این کے پروگرام ’امانپور‘ میں اینکر پرسن بیانا گو لوڈریگا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاں کہ مجھے اس چیز کا قوی یقین ہے کہ اب وقت بدل رہا ہے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ پبلک کا دباو بڑھتا جارہا ہے اور جنگ بندی ناگزیر ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاں کہ اسرائیل اثر رسوخ کے باوجود میڈیا کی جنگ ہار چکا ہے میڈیا نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ بیانا گولوڈریگا نے سوال کرتے ہوئے کہاں کہ آپ کس قسم کے تعلقات کی بات کررہے ہیں جس پر وزیر خارجہ نے کہا ”ڈیپ پاکٹس“
اینکر نے پوچھا : اس کا کیا مطلب ہوا؟
وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیلی بہت طاقتور اور بااثر لوگ ہیں یہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں ان کو بیلنس کرنے کے لیے عام رہائشی صحافیوں نے جو فوٹوز اور ویڈیوز شیئر کی ہیں ان تصاویر اور ویڈیو نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے دنیا کے ہر بڑے شہر میں جیسے کہ لندن میڈ رڈ مشی گن، شکا گو، اور سڈنی سے لیکر یورپ ممالک کے کیپٹلز تک ہر جگہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کے اس پاگل پن کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں اور جلد از جلد جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاں کہ اب سیکورٹی کونسل ایک جوائنٹ سٹیٹمنٹ دینے میں ناکام ہوچکی ہے لیکن جنرل اسمبلی نے ایک واضح پیغام دیاکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ امن و امان کو برقرار رکھیں۔
جس پر بیانا گولوڈریگا نے شاہ محمود سے کہا کہ میں اس بیان کو یہود مخالف بیان کہوں گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم ا س وقت پوری دنیا میں یہود یوں کے خلاف نفرت دیکھ رہے ہیں ان احتجاجوں میں بھی اینٹی سمیٹیسم دیکھا جارہا ہے میں کسی بھی راکٹ حملے کی حمایت نہیں کروں گا اور نہ ہی بمباری کی حمایت کروں گا۔ جب آپ اقوام متحدہ کی فلسطین پر قراردادوں کے خلاف جاتے ہیں مذاکرات کرنے کی بجائے نسل کشی جیسے ہتکھنڈے اپناتے ہیں تو پھر دنیا بھر سے ایسا ہی جواب آئے گا جو اس وقت احتجاجات کی شکل میں مل رہا ہے۔
سی این این کی اینکر نے وزیر خارجہ سے یہ بات پھر جاننے کی کوشش کی کہ آپ کا پروگرام میں آغاز ہی یہود مخالف بیان سے ہے،میں تو آپ سے بہت سارے موضوعات پربات کرنا چاہتی تھی لیکن آپ کی باتیں سن کر مجھے دکھ ہوا۔
جس پر وزیر خارجہ نے کہاں کہ یہ خیال میرا نہیں ہے بلکہ اس وقت دنیا بھر میں ہر کسی کا یہی خیال اور یہی بیانیہ ہے جب آپ متوازن کوریج نہیں کریں گے حقیقت کو چھپائیں گے تو پھر یہی کچھ ہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ میں حقیقت بات کرنے سے بالکل بھی نہیں گھبراتا۔
اس چیز سے بچنے کے لیے ٹوسٹیٹس سولوشن پر عمل کرنا ہوگا اور سیکورٹی کونسل کی ریزولوشنز کو ماننا ہوگا۔ ان کی عزت کرتے ہوئے وہ تمام وعدے پورے کرنا ہوں گے جو ان کے ساتھ کیے ہوئے ہیں جن کو اکثر توڑا جاتا ہے ۔ اس لیے میں مانتا ہوں کہ اس کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہیں یہ صرف ٹوسٹیٹس سولوشن کے ذریعے ہی ممکن ہے مذاکرات اور سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ممکن ہوگا اور جنگ بندی اس کا پہلا قدم ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں