عالمی اقتدار اب چین کے ہاتھوں میں۔

قوموں میں نشیب و فراز آتے ہیں بعض دفعہ قدرت کسی قوم کو ایسی کامیابیاں عطا کرتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قوم باقی قوموں کی سربراہ قوم بن جاتی ہے۔ آج سے 30برس قبل جب سویت یونین کمزور پڑکر ختم ہوئی تو اس سرد جنگ کا خاتمہ امریکی تاریخ کی بڑی کامیابی تھی مگر آج ماہرین کہتے ہیں کہ یہ امریکی تاریخ کی کامیابی نہیں بلکہ امریکہ کی بربادی کا نقطہ آغاز تھا۔
سن 2020میں شائع ہونے والی ایک کتاب جو اس وقت امریکا اور پوری مغربی دنیا میں کافی بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے کتاب کا نام Has China Won اور اس کے مصنف کا نام ہے کشورہے۔ جنہوں نے اس سے قبل بھی اس قسم کے موضوعات پر کافی کتابیں لکھی ہیں کشور ہاروڈ لی کو ان یونیورسٹی میں تدریس کا کام بھی کرتے ہیں کشور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امریکا اپنی سپر پاوری کھو رہا اور اس کی جگہ کمیونسٹ چین لے رہا ہے۔ اس کتاب میں وہ امریکا اور مغرب کی بڑی غلطیاں لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امریکا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور ان کا مداوا کرے ورنہ یہ سپر پاوری ختم ہونے جارہی ہے۔ اس کتاب کو امریکا میں بڑا سیریس لیا جارہا ہے اس کے دلائل اتنے مضبوط ہیں کہ ان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے پچھلے 30سالوں میں اپنی 50فیصد آبادی کے معیار زندگی کو بہتر کرنے پر ذور نہیں دیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے معیار زندگی میں کمی آئی ان کی آمدن میں کمی آئی جبکہ چین نے انہی تیس سالوں میں اپنی 700ملین آبادی کو غربت سے نکالا کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے چینیوں کو غذا، اعلیٰ تعلیم، صحت اور روزگار انفراسٹرکچر کی صورت میں وہ معیار زندگی دیا جو چینیوں کو ہزاروں سالوں کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیا تھا۔
امریکہ اپنی نام نہاد جمہوریت اور جمہوری نظام پر ناز کرتا ہے جبکہ چین جمہوریت کی بجائے Meritocracy(میرٹ کی بنیاد پر حکمران کا انتخاب) جیسے اصول پر چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے پاس ذہین اور قابل ترین افراد کی قیادت میسر ہیں انہیں جو ملک کے مفاد کے لیے بہترین فیصلے کرتے ہیں۔ اس نظام کے تحت کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو بھی موقع دیا جاتا ہے کہ ان میں قابل ترین لوگ فیصلہ سازی والے عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں اگر ان کے اندر ویسی قابلیت ہے تو۔ یہ نظام جمہوریت میں ناکام ہے کمیونسٹ پارٹی کا نظام اس جمہوریت سے مضبوط ہے جو پچھلے ستر سال سے ایک ارب 37کروڑ والے دنیا کے سب سے بڑے آبادی والے ملک کو اس منظم انداز میں چلا رہا ہے۔
مغرب کو عروج آئے ابھی 200سال بھی مکمل نہیں ہوئے مگر چین اور بھارت صدیوں پرانی قومیں ہیں چینی جس رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں یہ اپنی تہذیب میں دوبارہ جان ڈالنے جارہے ہیں تاکہ مغرب اور اس کی جھوٹی جمہوریت کو دنیا سے ختم کیا جائے اور ایک نیا نظام اس دنیا کو دیا جائے جو پچھلے ستر سال سے چین میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ سویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ میں رعونیت اور فرعونیت آگئی اور امریکہ طاقت کے نشے میں چور ہوگیا۔ امریکہ کی ناکامی کا سب سے اہم موڑ نائن الیون ہے جب امریکہ شدید غم و غصے کا شکار ہوگیا اور اس دوران عالمی معیشت کا ایک اہم واقعہ فراموش کردیا یعنی چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزین میں اپنی رعونیت کی وجہ سے شمولیت نہ کی امریکہ کی اس غلطی پر عالمی لیبر منڈی میں 900ملین تربیت یافتہ عالمی معیشت کا حصہ بن گئے اور اس دوران امریکہ کا ان ورکرز کے لیے مقابلہ بڑھ گیا اس سارے منظر نامے کے باوجود امریکہ نے اپنے ورکرز کی مہارت پر توجہ نہ دی۔
چین نے جب سستی لیبر کا اعلان کیا تو پوری دنیا کا سرمایہ بالخصو ص امریکی تاجروں نے چین اور ایشائی ممالک کا رخ کیا یوں امریکہ کا سرمایہ چین منتقل ہونا شروع ہوگیا اور چین کی معیشت مزید مضبوط ہونا شروع ہوگئی۔ اس ساری پریشانی کے باوجود امریکہ کو عقل نہ آئی اس مسلے پر توجہ دینے کی بجائے امریکہ نے اقلیتوں کے خلاف محاذ کھول لیا یعنی پچھلے تیس برس سے امریکہ نے اپنی معیشت پر توجہ نہیں دی بلکہ جنگ و جدل اور نفرت کی فضاکو ابھارا جبکہ چین ان سارے معاملات سے دور رہا اور ساری توجہ اپنی معیشت پر رکھی۔
کشور امریکی حکومت اور اعلیٰ حکام کو مشورے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا کے معاملات میں اپنی مداخلت کو ختم کردے اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنی نفرت کی فضا کو ختم کرے اور بالخصو ص اپنے ڈیفنس بجٹ کو انتہائی محدود کردے اور باقی سارا بجٹ اپنی عوام کے معیار زندگی کی بہتری پر خرچ کرے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے بجٹ کو بڑھائے تب جاکر یہ سارا کیپ ختم ہوگا ورنہ چین تو اب سر پہ کھڑا ہے۔
جب امریکہ طاقت کے نشے میں دھت مشرق وسطی میں عربوں کو ساتھ ملا کر، افغانستان، عراق، شام، یمن پر چڑ دوڑا تو اس دوران بھی چین نے کسی جگہ مزاحمت نہیں کی بلکہ اپنی معیشت کی طرف توجہ مرکوز رکھی امریکہ دنیا سے لڑتا رہا اور چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر سی پیک کا جال بچھا دیا۔
چین کا نظریہ ہے جب تک وہ دنیا پر اپنی حکمرانی نہ بنا لے وہ کسی قسم کی جنگ کا حصے دار نہیں بنے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں