عثمان غازی کے بعد اس کا پہلا جانشین کیسے بنا۔؟

آل عثمان اب تک اپنے اس بادشاہ کا احترام کے ساتھ تذکرہ کرتی ہے۔ اس کی صفات عالیہ اور عالی ہمتی کی تعریف و توصیف اور اس کی ان ہمہ گیر قابلیتوں کی عزت کی جاتی ہے جن کے ذریعے سے سلطنت کی ٹھوس بنیادیں قائم کی گئی تھیں۔ عثمان کے مزاج میں صحابہ کی طرح سادگی اور پرہیز گاری تھی۔ اس کی وفات پر خزانہ میں نہ جواہرات باقی تھے اور نہ سونا۔ اس نے اپنی دولت اپنے رفیقوں کو ان کی بہادری اور خدمات کے صلے میں صرف کردی اس کی دولت کی کل کائنات ایک زرد وزکفتان، ایک عمامہ، سرخ ململ کے چند تھان، ایک چمچہ، ایک نمکدان، چند قیمتی گھوڑے اور بھیڑوں کے چند گلے تھے۔
علا ء الدین عثمان کا بڑا بیٹا عثمان کا اصلی جانشین تھا۔ نوجوان شہزادے کے علمی ذوق اور تنہائی پسندی نے عثمان کو اس اصولی قانون کے نظر انداز کردینے پر مجبور کردیا، جس کے مطابق مسلمانوں میں جانشینی کے مسائل کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو اپنی وراثت تخت وتاج کے لیے نامزد کردیا۔
نئے سلطان نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی اسی قابل تھا کہ تخت و تاج کے معاملے میں اسے ترجیح دی جائے۔ اس نے نہایت فیاضی کے ساتھ اپنے اعلیٰ اقتدار میں علاء الدین کو برابر شریک بنا لینے کی تجویز پیش کی لیکن فیاضی اور سیر چشمی کے اس مقابلے میں علا ء الدین بھی ہزیمت ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
چنانچہ اس نے پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور محض اسی پر اکتفا نہیں بلکہ عثمان کی متروکہ بھیڑوں کے گلوں میں بھی اپنا آدھا حصہ لینا پسند نہیں کیا اور صرف یہ درخواست کی کہ ا س کو نیلو فر کنارے کسی قاؤں میں گوشہ نشینی کی اجازت دی جائے۔
بالآخر مجبو رہوکر ارخان نے اپنے بھائی سے درخواست کی کہ چونکہ گھوڑے، گائیں او ربھیڑیں جو میں پیش کررہا ہو ں کچھ قبول نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے آپ میری رعایا کے گلہ بان بن جائیں اوروزارت قبول کرلیجئے۔ اپنے متعلق اپنے بھائی کے اس اعتماد سے بے انتہاء متاثر ہوکر علاء الدین نے وزارت عظمیٰ کا منصب قبول کرلیا۔ چنانچہ اس کو باقاعدہ طور پر وزارت کا عہدہ تفویض کردیا گیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے پاشا کے لقب کو اپنے نام سے عزت بخشی نوجوان شہزادہ اب نوخاستہ سلطنت کی تنظیم اور تاحد امکان ایک مکمل نظم و نسق قائم کرنے کی تدبیروں میں ہہ تن مصروف ہوگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں