عرب جاہلیت اوردوسرے ممالک ۔۔؟

ایران : ایران دنیا کے نہایت مشہور، قدیم اور باعزت ملکوں میں شمار ہوتا ہے عہد قدیم میں آبادی مذہب اس ملک میں رائج تھا۔ پھر مہ آبادی مذہب کی اصلاح و تجدید کے لیے بہت سے پیشوا یان مذہب بطور مجدد اس ملک میں ظاہر ہوتے اور اصلاح دین کا کام کرتے رہے۔ اس سے پہلے دور کے ختم ہونے تک زر تشت نے دین آتش پرستی ازسر ونو جاری کیا جو دین مہ آبادی کی ایک اصلاح شدہ حالت کا نام سمجھنا چاہیے۔ زرتشت نے اپنے آپ کو ہادی برحق بتایا اور بہت جلد ایرانی سلطنت اور اریرانی رعایا کا مذہب زرتشتی دین ہوگیا۔

ایرانیوں نے غالبا دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کی۔ ایرانیوں کے انتہائے عروج کے زمانے میں ان کی حکومت بحرہ روم بلکہ مصر سے کوچین اور منگولیا اور کوہ ہمالیہ و خلیج فارس کے بحرہ خزرو کوہ الٹائی تک وسیع تھی۔ تما براعظم ایشیاء میں ان کا تمدن غالب تھا۔ ان کی تہذیب ایشیا کے ہر ملک میں قابل تقلید اور ان کے اخلاق ہر ایشیائی قوم کے لیے قابل اقتدار سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی حالت ظہور اسلام کے وقت اس قدر خراب اور ذلیل ہوچکی تھی کہ وہ شرک میں مبتلا ہونے کے سبب اپنی ایک ایک خوبی برباد اور زائل کرچکے تھے۔

زرتشت کو الہیہ صفات دے کر انہوں نے اپنے معبود ان باطلہ میں شامل کرلیا تھا۔ خالق خیر اور خالق شر دو معبود یزدان و اہرمن کے نام سے پوجے جاتے تھے۔ آگ کی پرستش علانیہ خوب زور شور سے ہوتی تھی۔ زنا کاراج اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ مزدک ناہنجانے سر دربار کسرائے ایران کی بانوے سلطنت کو عصمت کرنے کی فرمائش کی اور فرما ں روائے ایران نے اس کی اس نامعقول و حیا سوز جرات کی مخالفت ضروری نہ سمجھی۔ آپس کی نا اتفاقی ودرندگی، بغض و حسد، دھوکہ بازی وہ فریب وہی، زبردستوں کا زیر دستوں کو چوپایوں سے زیادہ ذلیل سمجھنا وہ معائب تھے جنہوں نے ایران پرہر طرف سے نحوست و ادبار کو اس طرح متوجہ کردیا تھا۔ جیسے سیلاب نشیب کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تمام علوم، تمام تہذیب، تمام اخلاق فاضلہ اور تمام انسانی خوبیاں ملک ایران کو خالی کرچکی تھی اور وہ ملک جو کسی زمانہ میں تہذیب وتمدن کا منبع و مرکز تھا یکسر تاریک ہوچکا تھا۔

نہ صرف ستارہ پرستی و آتش پرستی و مشاہیر پرستی ہی رائج تھی بلکہ بادشاہ، وزراء سپہ سالار اور مراء بھی عوام سے اپنی پرستش کراتے تھے۔ اس عذاب سے ایرانی مخلوق اس وقت آذاد اور ملک کی تاریکی اس وقت دور ہوئی جبکہ مسلمانوں نے حدود ایران میں فاتحانہ قدم رکھا۔

روم و یونان :
ایرانی شہنشاہی کے مدمقابل دنیا کی دوسری سے بڑی طاقت رومیوں کی سلطنت و حکومت تھی۔ روم و یونان کی تہذیب بی بہت قدیم و شاندار اور ان کے علوم فنون اور شوکت و عظمت مشہور آفاق ہو چکی تھی۔ طب، ریاضی، ہیت، منطق، فلسفہ و حکمت وغیرہ کی ترقی میں دنیا کا کوئی ملک بھی یونان کا مقابلہ نہیں کرسکا تھا۔ اسی ملک میں سقراط، بقراط، لقمان، افلاطون اور ارسطو پیدا ہوچکے تھے۔ اسی ملک میں سکندر اعظم جیسا فتح مند اور ملک گیر بادشاہ پیدا ہوا تھا۔ یونانی قیصر جس کا دارالسطنت قسطنطنیہ تھا نہ صرف شہنشاہ بلکہ دینی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا۔
باوجود ا ن مادی اور علمی ترقیات کے چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں روم اور یونان اس قدر ذلت اور پستی کی حالت کو پہنچ چکے تھے کہ ایران کی تاریکی روم و یونان کی تاریکی سے ہر گززیادہ نہ تھی۔ جس طرح ایران میں ہر مقروض اپنے آپ کو بطور غلام بیچ ڈالتا تھا اسی طرح یونان میں غلاموں کی کئی قسمیں تھیں۔ ایک قسم غلام کی ایسی تھی کہ وہ یونان سے باہر دوسرے ملکوں میں لے جاکر نہیں بیچی جاتی تھی لیکن عام طور پر اکثر غلام غیر ملکوں میں لے جاکر اسی طرح فروخت کئے جاتے تھے جس طرح گھوڑے، بیل، اونٹ، بکری وغیرہ فروخت کئے جاتے ہیں۔ روم و یونان میں غلاموں کو شادی کرنے کا اختیار نہ تھا۔ ان میں اور ان کی اولاد میں کوئی قانونی رشتہ نہ سمجھا جاتاتھا۔

عیسائیوں کی پستی: حضرت عیسیٰ سے دو برس بعد تک عیسائیوں میں راہبوں کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا لیکن چھٹی صدی میں راہبوں کی یہ کثرت شام و یونان اور روم میں ہوگئی کہ ہر شخص جو عزت و تکریم کا خواہاں ہوتا رہبانیت اختیار کرلیتا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ رسم عورتوں میں بھی رائج ہوگئی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ خانقاہ جو راہب مردوں اور راہبہ عورتوں کی قیام گاہیں تھیں، قابل شرم حرکات کا مقام بنیں۔ بعض راہب صحرانشین بھی تھے۔
عورتوں کی جائز عزت اور والدین کی تعظیم قطعاً منقود ہوچکی تھی۔ چوری، زنا، دھوکہ بازی عام طور پر رائج تھی۔ گداگری معیوب نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جو طوفان رہبانیت کا لازمی نتیجہ تھا،توحید اور رب پرستی کا نام و نشان باقی نہ رہا تھا۔ زاہدوں، راہبوں اور مذہبی پیشواوں کی خدمت گزاری سے رضامند کرلینے کے ذریعہ نجات کا سرٹیفکیٹ حاصل کیاجاتا تھا۔ امراء غرباء کو اپنا خادم اور ان سے بطور غلام خدمت لینے کو اپنا جائز حق سمجھتے۔ بادشاہ اور سپہ سالار رعایا کا مرتبہ حیوانوں سے برتر نہیں جانتے اور کاشتکاروں کی تمام محنت و مشقت کے نتیجہ پرخود قابض ہو کر بقدر قوت لایموت ان کے لیے کچھ قدر قلیل چھوڑ دیتے تھے۔

مصر: مصر کی قدامت کا تصور اور مصری تمدن کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لیے اہرام مصری ابوالہول کے مجسمے اور موجود زمانہ میں تہ خانوں سے برآمد ہونے والی اشیاء سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔ مصر چونکہ ایک زرعی ملک ہے لہذا قدیم مصریوں کی طاقت جب ذرا کمزور ہوئی تو وہ بیرونی ممالک اور بیرونی اقوام حملوں کی آماجگاہ بن گیا۔ مصر پر ایرانیوں، یونانیوں، اور رومیوں نے بار بار حملے کئے اور بہت دنوں تک قابض و متصرف رہے۔ قیام چاہتا ہے کہ ان حملہ آوروں کی تہذیب و تمدن نے بھی مصر پر اپنا اثر ڈالا ہوگا اور مصریوں کی تہذیب نے ضرور ترقی کی ہوگی۔
عیسائی مذہب رومیں کے عہد حکومت میں مصریوں کے اندر رائج ہوا مصر کی آبادی کا ایک معقول حصہ عیسائی مذہب قبول کرچکا تھا مگر اسلام کے مصر میں داخل ہونے سے پہلے مصر کی حالت نہایت پست اور ہر ایک اعتبار سے بے حد ذلیل ہوچکی تھی۔ عیسائیت کی حالت مصر میں بت پرستی سے زیادہ بہتر نہ تھی۔ بت پرست مصریوں میں تمام وہ معائب موجود تھے جو کسی ذلیل سے ذلیل بت پرست قوم میں ہوسکتے ہیں۔ رومی ویونانی جو فاتح و حکمران قوم سمجھے جاتے تھے رعایا کو چاپایوں سے زیادہ ذلیل سمجھتے تھے، جو جو عیب یونانیوں اور رومیوں کے اندر موجود تھے وہ سب کے سب زیادہ خراب حالت میں مصر کے اندر دیکھے جاتے تھے۔ غلامی نہایت ظالمانہ اندار میں رائج تھی۔
زنا کاری اور غارتگری کے لیے ترغیب دہ اصول و قواعد بنا لیے گئے تھے قتل انسان معمولی تفریح گاہوں کے لیے سامان تفریح سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کو خود کشی کی ترغیب دی جاتی تھی غرض کہ مصر کی تاریکی بھی کسی ملک کی تاریکی سے کم نہ تھی اور تہذیب و شائستگی کی علامات مصریوں کے اعمال و اخلاق سے بالکل معدوم تھیں اور جہالت و تاریکی جس قدر چاہو موجود تھی۔

ہندوستان : اشوک چندرگپت اور بکرماجیت، بڑے بڑے نامور مہاراجے ہندوستان میں گزر چکے تھے۔ہیت، ریاضی فلسفہ وغیرہ علوم پر ہندیوں کو خاص طور پر ناز تھا۔ کرشن، رام چند ر اور گوتم بدھ جیسے بانیان مذاہب کی حکایات اور مہا بھارت و رام لیلا کے رزمیہ افسانے بھی ان کو یاد تھے لیکن جس زمانے کی دنیا کا ہم اس وقت معائنہ کررہے ہیں اس زمانے میں بدھ مذہب ہندوستان سے خارج ہورہاتھااور برہمنی مذہب بتدریج زور پکڑ تا جارہا تھا۔
ہندوستان کے کسی ایک بڑے صوبے پربھی کوئی ایک عظیم الشان سلطنت و حکومت قائم نہ تھی۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور شور اور خوب دور دورہ تھا۔ بدھ اور برہمنی دونوں مذہبوں میں بتوں کی پوجا یکسا ں طور پر موجب نجات سمجھی جاتی تھی۔
برہمنوں اور بدھوں کے بت اکثر مندروں میں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھے ہوئے تھے اور بڑے جوش عقیدت کے ساتھ پوجے جاتے تھے۔ چینی سیاح لکھتا ہے کہ ہندوستان کا ایک بھی گھر قسم کھانے بتوں سے خالی نہ تھا۔ بام راگیوں کے پلید اور حیا سوز مسلک نے ملک کے ہر حصہ میں مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل کرلی تھی زناکاری کے لیے مصریوں کی طرح اصول و قواعد مقر ہوکر داخل مذہب سمجھے گئے تھے۔
سندھ کے راجاوں میں ایسی مثالیں موجود تھیں کہ حقیقی بہنوں سے انہوں نے شادیاں کیں جب راجاوں اور حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عوام کی بدتمیزیاں کچھ ان سے بڑھ کر ہی ہوں گی۔ اسی زمانے میں بعض تصنیفات جو آج پرانوں اور مذہبی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں ہندیوں کے اخلاق کو نہایت پست اور ان کی معاشرت کو بے حد قابل شرم ظاہر کرتی ہیں۔ ستاروں،سیاروں، پہاڑوں، دریاوں، درختوں، حیوانوں، سانپوں، پتھروں اور شرم گاہوں کی پرستش ملک ہندوستان میں تھی اور ہر طرف جاری و ساری تھی۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تاریکی کس قدر عظیم و اہم تھی۔

چین: جن ملکوں کا ذکر اوپرہوچکا ہے سب کے سب عرب کے ہر چہار سمت واقع ہیں اور یہی مشہور و متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں ان میں صرف ملک چین کا اور اضافہ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی آباد و سرسبز اور متمدن ممالک میں شمار ہوسکتا تھا۔ چین کی حالت مذکورہ ممالک سے بھی بدتر تھی کنفیوشش تاو اور بد تین مذاہب کے کیمیاوی امتزاج نے چین کی تہذیب اور اخلاقی حالت میں وہ کیفیت پیدا کررکھی تھی جو سوڈا اور ٹار ٹارک ایسڈ کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے۔ بالآخر اس حالت میں کوئی سکون اور امن کی کیفیت پیدا ہوئی تو اسی وقت میں جبکہ مسلمانوں کی ایک جمعیت نے چین میں داخل ہوکر سکونت اختیار کی اور اپنے اخلاقی نمونے سے اپنے ہمسایوں کو متاثر کیا۔ ترکستان، روس، برما، یورپ وغیرہ میں بھی انسانی آبادی موجود تھی لیکن ان ملکوں کے رہنے والے انسانوں سے یا تو دنیا واقف نہ تھی یا ان کو بمشکل انسان کہا جاتا ہوگا۔ بہر حال کوئی قابل رشک خوبی ان میں موجود نہ تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں