غریب ممالک کی غربت کے اسباب کی وجہ کیا ہے۔۔؟

آج اگر دیکھا جائے تو دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک طرف امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں صنعتی ترقی عروج پر ہے۔ ان ملکوں کے لوگوں کے پاس جدید ترین سہولیات ہیں اور ان کا معیار زندگی غریب ممالک کے عوام سے الگ ہے۔ دوسری طرف وہ ممالک ہیں جہاں غربت آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگ غریب کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں یہاں تک کے لوگ کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے کھانا تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں کے پاس وہ سہولتیں اور وہ آسائشیں نہیں ہیں جو یورپ اور مریکہ جیسے ممالک کے عوام کے پاس ہیں۔آخر ان ممالک کے پاس کونسا فارمولا ہے جو انہیں امیر سے امیر تر بناتا جارہا ہے اور دیگر ممالک میں لوگ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں؟
کیا جغرافیائی اعتبار سے یا موسم کا کوئی تعلق ہے اس میں کیا غریب ممالک کے حکمران نکمے اور کرپٹ ہیں؟
2012ء میں ایک کتاب شائع ہوتی ہے Why Nations Fail اس کتاب کے مصنف نے انہی سوالوں کے جوابات نکالنے کی کوشش کی پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا قومیں اپنے جغرافیائی اعتبار سے ناکام ہوتی ہیں؟ پاکستان جیسے ممالک کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ جغرافیائی اور موسم کی شدت کی وجہ سے یہاں پر ترقی ممکن نہیں کیونکہ یہاں کا موسم گرم ہے لوگ سست اور قائل ہیں کام نہیں کرتے اور کام چور ہیں اور اپنے معاشرے میں تبدیلی اور نئے آئیڈیاز کو بھی پسند نہیں کرتے اس کے برعکس امیر ممالک میں چونکہ موسم اچھا ہوتا ہے سرد ہوتا ہے اس وجہ سے وہاں کے چست و چالاک ہیں محنتی ہیں اپنے کا م میں لگن رکھتے ہیں کسی کے کام کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر کرتے ہیں اسی لیے وہ خوشحال ہیں اٹھارویں صدی کے فرانسییی فلسفی مونیٹیسکیو نے اپنا ذاتی نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کے اس نظریہ کو دنیا یکسر مسترد کردیا اور کچھ نے اتفاق بھی کیا۔ اس کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی ان دونوں ملکوں کا جغرافیہ ایک ہی تھا سردجنگ کے دور میں مغربی جرمنی ترقی یافیہ بن گیا مگر مشرقی جرمنی کے لوگ غربت کی آگ میں پستے رہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب مشرقی جرمنی کے لوگوں نے دیوار برلن گرادی اور مغربی جرمنی کے ساتھ مل گئے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا قوموں کی ناکامی میں ان کی ثقافت یا کلچر کا ہاتھ ہوتا ہے؟
ایک اور بھی اہم وجہ سامنے آئی ہے کہ بعض قومیں اپنے کلچر کی وجہ سے بھی ناکام ہوتی ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال یہ بھی ہے کہ افریقی ممالک اس وجہ سے غریب ہیں کہ وہ لوگ جادو ٹونے جیسی چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اور مغربی ٹیکنالوجی کی مزاحمت کرتے ہیں اسے قبول نہیں کرتے۔ اس کے لاطینی امریکہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی امیر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں کے لوگ توانائی کو ضائع کرتے ہیں اور یہ ان کا کلچر ہے اور ان کے پاس سرمایہ بھی کم ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ لاطینی امریکہ کے لوگ ٹال مٹول کے کلچر پر یقین رکھتے ہیں۔ قوموں کی ناکامی کے متعلق ثقافت کا نظریہ جس کو جرمنی ماہر سماجیات نے پیش کیا تھا۔ اس کا کہناتھا کہ یورپ میں پروٹسٹنٹ اخلاقیات نے جدید صنعتی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یعنی جب یورپ نے کیتھولک کے سخت نظریات کو چھوڑ ا اور پروٹسٹنٹ کے نظریات کو اپنایا تو وہاں ترقی ہونا شروع ہوگئی۔ مگر بعد میں اس نظریے کو بھی لوگوں نے مسترد کردیا۔ اگلا اہم نقطہ کہ پاکستان جیسے ممالک کے حکمران جاہل ہیں یہ سمجھا جاتا ہے کہ
سیاسی لیڈرز جدید دور کے تقاضوں اور خاص طورپر مارکیٹ اکانوی کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور اسی جہالت کی وجہ سے انہیں بہت ساری تجارتی سرگرمیوں کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ان ممالک کے ماہرین اقتصادیات یہ نہیں جانتے ہیں کہ تجارتی سرگرمیوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے روکاوٹوں کو کیسے دور کرنا ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں امیر ممالک کے حکمران پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کے ماہرین اقتصادیات کو تجارت کی رگ رگ کا علم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیاب پالیسز نے ان کی ناکامیوں کو کامیابی میں بدل دیا۔
ان کے خیال میں ان ممالک کے لیڈر جاہل نہیں ہوتے بلکہ مجبو ہوتے ہیں جس کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ افریقی ملک گھانا نے برطانیہ سے آزدی کے بعد وہاں ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تھی۔ اس ڈکٹیٹر شپ حکومت نے ایسے علاقوں میں فیکٹریاں قائم کی جہاں کام مال پہنچانا اورپھر انہیں فروخت کرنا بہت ہی لمبا اور مہنگا عمل تھا۔ چنانچہ ترقی کا فائدہ کسی کو نہیں پہنچا۔ حالانکہ گھانا کی حکومت کے پاس بہترین معاشی ماہرین تھے۔ یعنی گھانا کے لیڈر جاہل نہیں تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کی معاشی پالیسز سے نقصان ہوگا۔لیکن مسلہ یہ تھا ککہ فیکٹریاں لگانے کے لیے علاقوں کا انتخاب ان کی سیاسی اہمیت کی وجہ سے کیا گیا تھا کسی اور وجہ سے نہیں۔ اصل میں ہر ملک یا قوم کی ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی اشرافیہ یا ایلیٹ کلاس کا مفاد کس چیز میں ہے۔ یعنی اگر ایلیٹ کلاس کو ملک کو ترقی دینے کا خیال آئے تو وہ دے بھی سکتے ہیں اگر نہ آئے تو گھانا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اٹھارویں صدی میں جب صنعتی انقلا ب آیا تو اس وقت یورپ کے بیشتر ممالک کی حکومتیں جاگیرداروں اور روایتی اشرافیہ کے کنٹرول میں تھیں۔ یہ لوگ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مڈل کلاس طبقے، تاجروں اور کاروباری شخصیات کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ اپنی سیاسی طاقت کو خطرے میں دیکھ کر جاگیردارطبقے نے کاروباری حضرات کی مخالفت شروع کردی۔ جبکہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب ا س کے کامیاب رہا کہ وہاں کے جاگیردار طبقے نے صنعتی انقلاب کی مخالفت نہیں کی۔ اس کے علاوہ اس دور میں آسٹریا، ہنگری اور روسی بادشاہتوں میں جہاں بادشاہ اوراشرافیہ کے نقصان کی شدت زیادہ تھی وہاں انڈسٹریلائزیشن کا عمل روک دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آسٹریا ہنگری اور روش کی معشتیں کمزور ہوگئیں جبکہ برطانیہ برطانیہ اور دیگر وہ ممالک جہاں صنعتی انقلاب کی راہ میں کوئی روکاوٹ نہیں کھڑی کی گئی وہ عروج پر پہنچ گئی۔

خلاصہ یہ ہے آج ہم امریکہ یا یورپ میں جو ترقی دیکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی ایلیٹ کلاس کو اس میں اپنی ترقی اور اپنا فائدہ نظر آتا تھا اور آتا ہے جبکہ غریب ممالک اس لیے غریب ہیں کیونکہ وہاں کی ایلیٹ کلاس ترقی میں اپنا فائدہ نہیں دیکھتی بلکہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے
لہذا جن ممالک کی ایلیٹ کلاس کو ترقی میں اپنا فائدہ دکھائی نہیں دیتا وہاں ترقی نہیں ہوتی یہی صورت حال پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں