قوت کشش کی دریافت کیسے مکمل ہوئی سبق آموز داستان۔؟

ٹائیکو برا ہے 1546ء میں پیدا ہوا، اور 1601ء میں پراگ میں اس کی وفات ہوئی۔ جوہانس کپلر (Johannes Kepler)1571میں پیدا ہوا اور ورٹمبرگ میں 1630ء میں اس کی وفات ہوئی۔ دونوں فلکیات کے شعبہ میں تحقیق کررہے تھے، مگر دونوں میں سے کوئی بھی اس حیثیت میں نہ تھا کہ وہ عالم افلاک میں کوئی بڑی حقیقت دریافت کرسکے۔
ٹائیکو برا ہے اور کپلر دونوں ہم عصر تھے، مگر ایک چیز دونوں کے لیے کسی بڑی فلکیاتی دریافت میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی وہ یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے موضوع کے ہر گوشہ پر مہارت نہ رکھتا تھا۔ ٹائیکو براہے نے کثرت سے فلکیات کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ اپنے مشاہدات کو قلم بند کرتا رہتا تھا۔فلکیاتی مشاہدات کے بارے میں یہ تحریر ی ذخیرہ اس کے پاس کافی مقدار میں جمع ہوگیا تھا۔ مگر علم الافلاک کا دوسرا پہلو ریاضی سے تعلق رکھتا ہے اور ٹائیکو براہے ریاضی میں کمزو ر تھا۔ اس بنا ء پر اس کو یہ قدرت حاصل نہ تھی کہ اپنے مشاہدات کو ریاضی کے کلیات میں مربوط کرسکے۔ دوسری طرف کپلر کا معاملہ یہ تھا کہ وہ فلکیاتی مشاہدہ میں کوئی مہارت نہ رکھتا تھا۔ وہ بہت کم مشاہدہ کرتا تھا۔ اس کے زمانہ میں اگرچہ دوربین دریافت ہوچکی تھی مگر عملاً وہ دور بین سے کام نہ لے سکا۔اس کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ وہ ریاضیات کا ماہر تھا۔ حسابی طور پر اس نے فلکیات کے بارے میں بہت سے قیمتی نظریات وضع کیے تھے۔
یہاں ٹائیکو براہے کی فراخ دلی نے کام کیا۔ ٹائیکو براہے اور کپلر میں اگرچہ ذاتی اختلافات تھے حتی کہ کپلر نے اپنے ایک خط میں ٹائیکو براہے پر منافقت کا الزام لگایا تھا اور اس کو بہت برا بھلا کہا تھا، مگر ٹائیکو براہے اپنی تیز مزاجی کے باوجود کپلر پر غصہ نہیں ہوا، آخر وقت میں اس نے سوچا کہ میرے علمی ذخیرہ کا سب سے بہتر وارث کپلر ہی ہوسکتا ہے۔
چنانچہ اس نے کپلر کی گستاخیوں کو بھلاتے ہوئے اس کو اپنے پاس بلایا اور 1601میں اپنی موت سے پہلے اپنا پورا تحریری ذخیرہ بلا معاوضہ کپلر کے حوالے کردیا۔ جب ٹائیکو براہے کے مشاہدات کا سارا سرمایہ کپلر کے پاس آگیا تو کپلر کی کمی کی تلافی ہوگئی۔ اب اس نے اپنے دماغ کی تمام ریاضیاتی قوت کو ان مشاہدات کے ساتھ مربوط کرنے میں لگا دیا۔ اس کا نتیجہ ان تین کلیات کی صورت میں نکلا۔ کپلر کے سہ گانہ قوانین حرکت کے نام سے مشہور ہیں ان قوانین کو استعمال کرتے ہوئے بعد میں سر آئزک نیوٹن نے قوت کشش کے بارے میں دریافت مکمل کی۔
یہی موجودہ دنیا میں کسی بڑی کامیابی کا راز ہے۔ ہر آدمی کی اپنی محدود دیت ہوتی ہے اس بنا پر کوئی بھی شخص تنہا کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ کوئی بڑا کام اس وقت انجام پاتا ہے ہے جب کہ کئی لوگ اپنی صلاحیتوں اور اپنی کوششوں کو ایک رخ پر لگانے کے لیے راضی ہو جائیں۔ متحدہ کوششیں کیے بغیر اس دنیا میں کسی بڑے واقعہ کو ظہور میں لانا ناممکن نہیں۔، مگر متحدہ کوشش کی ایک قیمت ہے اور وہ قیمت ہے اختلاف کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اتحاد کی بات پر ایک دوسرے سے جڑنا۔ اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہوجانا۔ انسان کے اندر اختلاف کا پایا جانا لازمی ہے۔ اس دنیا میں اخلاص کے باوجود لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ اختلاف سے بچنا کسی طرح ممکن نہیں ایسی حالت میں عملی بات صرف یہ ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا حوصلہ پید اکریں۔ اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی پہلوؤں کو بھلا دیں۔ بڑی چیز کی خاطر چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کردیں۔ مقصد کے تقاضے کے لیے اپنی ذات کے تقاضوں کو دفن کردیں۔ اسی کا نام بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی ہے اور اس بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی کے بغیر اس دنیا میں کسی بڑے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں