مسلمانوں کو پریشان کرنے والا حسن صباح کون تھا ۔۔؟

سلجوقی سلطنت کے بادشاہ سلطان ملک شاہ کے آخری ایام میں حسن بن صباح اور اس کی جماعت نے جس کو باطنیہ یا حشیشین بھی کہتے ہیں ظہور کیا اور اپنے خفیہ حملوں اور خونریزی سے دنیاے اسلام میں تہلکہ مچا دیاتھا۔
حسن بن صباح نظام الملک کا ہمعصر تھا اس نے سلطان ملک شاہ کے دربار میں رسائی حاصل کرکے کوشش کی کہ کسی طرح نظام الملک کی جگہ لے لے۔ مگر اسے اپنے منصوبہ میں کامیابی حاصل نہ ہوئی جب وہ دربار شاہی سے ناکام ہوکر نکلا تو اس نے اسمعیلی مبلغوں کے اثر سے اسمعیلی عقائد اختیار کرلیے اور چند سال کی مسلسل دعوت تبلیغ سے اپنے ہم خیال لوگوں کی ایک کثیر جماعت پیدا کرلی۔ سن 483ہجری سن 1091عیسوی میں ماژندران کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں الموت کے مضبوط قلعے پر قبضہ کرکے اسے اپنا صدر مقام بنایا اور آس پاس کے کوہستان میں اور بہت سے قلعے فتح کرکے وہاں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالی تھی۔

حسن بن صباح کے مرید مختلف درجوں میں منقسم تھے،ایک درجہ فدائیوں کا تھا یہ لوگ اپنے امام کا ہر ایک حکم بلاچوں و چرا بجا لانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ حسن بن صباح اور اس کے جانشینوں کا یہ دستور تھا کہ وہ مخالفوں کو فدائیوں کے ہاتھ سے چپکے سے مروا ڈالتے تھے۔ اس قسم کے خفیہ قتل کی مسلسل وارداتوں سے ملک میں دہشت پھیل گئی تھی اور لوگ ان سے بہت خائف رہتے تھے۔ آخر کار سن 485ہجری سن 1093عیسوی میں نظام الملک بھی ان کی سفاکی کا شکار ہوگیا اور حسن صباح کے فدائیوں نے سلطان ملک شاہ کے خاص آدمی نظام الملک کو بے دردی سے شہید کردیا تھا۔
لوگ عام طور پر حسن بن صباح کو ”شیخ الجبل“ کہتے تھے اور اس کے پیروں کو باطنی یا ”مَلا حَدہ (بے دین، بد عقیدہ) کے نام سے یا دکیا جاتا تھا۔ حسن بن صباح اپنے مریدوں کو حشیش (بھنگ) کے نشے میں مدہوش کرکے ایک مصنوعی بہشت کے جلوے دکھاتا تھا، اس لیے اس کے فرقے کو حشیشین بھی کہتے تھے۔

حسن بن صباح کی بیخ کنی کے لیے سلجوقیوں نے الموت پر چڑھائی کی۔ مگر نظام الملک کے قتل اور ملک شاہ کی وفات کے سبب سے یہ مہم ناتمام رہی اور اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ سلطان ملک شاہ کے انتقال پر سلاجقہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جس سے حسن بن صباح نے خو ب فائدہ اٹھایا۔ اس نے آس پاس کے بہت سے قلعے فتح کرکے اپنا اقتدار بڑھایا اور اپنے عقائد کی اطمینان سے اشاعت کرنے لگا۔

حسن بن صباح نے سن 518ہجری 1124عیسوی میں انتقال کیا۔ اس کے سات جانشینوں نے الموت اور اس کے مضافات میں 171سال تک حکومت کی آخر کار سن 654ہجری سن 1156عیسوی میں تاتاریوں کے بادشاہ ہلاکوں خان نے الموت کو فتح کرکے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

اگرچہ حسن بن صباح کی قائم کردہ ریاست مٹ گئی تھی مگر اس کے فرقے کے لوگ اب تک موجود ہیں۔ ہزہائی نس سر محمد شاہ آغا خان الموت کے آخری حکمران رکن الدین خوارزم شاہ کی اولاد سے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں