مسلمان سائنسدان کب اور کیسے ترقی کر سکیں گے۔۔؟

بیسوی صدی میں مسلم دنیا تین اہم تبدیلیوں سے گزری۔چھے سو سالہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ سعودی عرب اور مشرق وسطی میں تیل کے چشمے پھوٹ نکلے اور 1960ء تک ایشیاء افریقہ اور مشرق بعید میں واقع تقریباً سارے ہی مسلم ممالک نو آبادیاتی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے۔ تیل کی دولت ہاتھ لگنے اور سیاسی آزادیاں حاصل کرنے کے بعد مسلم ممالک کے پاس بڑا سنہری موقع تھا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھتے اور پیش رفت کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس منصوبہ بندی کرتے لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ہم افریقی ملکوں کو کیا دوش دیں،خود پاکستان نے بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ اطمینان بخش کام یابی حاصل نہیں کی۔ پاکستان اپنے زرعی، معدنی اور توانائی کے بیش بہا قدرتی وسائل کو استعمال کرکے انتہائی خوش حال اور طاقت ور ملک بن سکتا تھا، اس کے برعکس یہ غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں سائنسدانوں اور ریسرچ ورکرز (آر اینڈ ڈی ورکرز) کی تعداد بڑ ھ رہی ہے جبکہ پاکستان میں گھٹ رہی ہے۔ ہمارے ہاں رات گئے کی بات تو چھوڑیے لیبارٹریز میں دن میں بھی اندھیرا رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو سائنس دان ریٹائر ہوجاتے ہیں یا انتقال کر جاتے ہیں ان کی جگہ پر نہیں کی جاتی اس لیے سائنسدانوں کی بھرتی (ریکروٹمنٹ) پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ سائنس داں تو قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں انہیں ریٹائر نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے آخری وقت اور سانس تک کام لیا جاتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے پاکستان میں ریسرچ اور ورکنگ سائنٹسٹوں (آر اینڈ ڈی) میں پاور کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ اب یہ تعداد گھٹ کر ساتھ آٹھ ہزار رہ گئی ہے۔ اکیسویں صدی کی اس خوف ناک صورت حال میں ہم معاشی ترقی اور خوشحالی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں آبادی اور سائنس دانوں کے درمیان جو تناسب (ریشو) پایا جاتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان میں سائنس دانوں کی تعداد ڈیڈھ لاکھ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ تعداد ساتھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا تو خیر ذکر ہی کیا، امریکہ میں یہ تعداد 40لاکھ، چین میں 20لاکھ، جرمنی میں دس لاکھ اور ایک کروڑ سے کم آبادی والے اسرائیل میں یہ چوالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ ہم اس دنیا میں واحد احمق قوم ہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
پچھلے نوے سالوں کے دوران مشرق وسطی کے مسلم ممالک میں تیل کی جوبے حدود حساب دولت آئی اس سے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے سینکڑوں ادارے سائنٹیفک اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوشنز، معیاری لائبریریاں اور ثقافتی ادارے بنائے جاسکتے تھے۔ لیکن کسی کا دھیان ان چیزوں کی طرف نہیں جاتا۔ تیل سے حاصل ہونے والی بیش بہا دولت کو غیر پیداواری شعبوں (نان پروڈکٹیو سیکٹرز)جیسے ہوٹلوں، ریستورانوں، کثیر منزلہ عمارتوں اور سیرو تفریح والے پانی کے جہازوں پر ضائع کردیا گیا ہے البتہ سڑکوں اور ائیرپورٹس کی تعمیر جیسے چند مفید کام کیے گئے ہیں لیکن کسی ملک نے بھی صارفین کے معاشرے (کنزیومر سوسائٹی) جسے مقام و مرتبے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی۔
مسلمانوں کے لیے اس سے بڑا لمیہ اور کیا ہوگا کہ انہیں جگانے اور متحد کرنے کا فریضہ بھی غیر مسلموں اور دشمنوں کو انجام دینا پڑتا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اگر ایک ملعون یہودی نے مسجد اقصیٰ میں آگ نہ لگائی ہوتی تو مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) بھی وجود میں نہ آتی اور رباط میں مسلم ممالک کے سربراہوں کی پہلی سربراہ کانفرنس بھی منعقد نہ ہوتی۔ آج کل یہ کام توہین رسالت ﷺ اور خاکوں کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ او آئی سی وجود میں آتو گئی لیکن ایسی بے جان اور مردہ تنظیم سے تو افریقی اتحاد کی تنظیم او اے یو (آرگنائزیشن آف افریقین یونٹی) لاکھ درجے بہتر اور فعال ہے جو اپنے مسائل تو حل کرلیتی ہے۔ او آئی سی نے اپنی باون سالہ عمر (1969تا 2020) میں صرف د وقابل ذکر کام کیے ہیں۔ ایک تو مسلم ممالک کے سائنسدانوں ٹیکنوکریٹس اور ماہرین کی بارہ جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم ڈائریکٹری تیار کی ہے۔ اور دوسرا قابل ذکر کام یہ کرتی ہے کہ مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے اجلاس یا کلاسٹیک میٹنگوں میں رنگ برنگے اور لال پیلے ہرے جھنڈے لہرا کر خوش ہوتی ہے اور فخر کرتی ہے کہ مسلم ممالک کی تعداد ستاون ہوگئی ہے اور دنیا میں موجود توانائی، معدن اور دیگر قدرتی زرعی وسائل کا پچیس فیصد حصہ ان کے پاس ہے۔ لیکن پھر اس سے آگے لینا کچھ نہیں۔
22فروری 1974ء کو لاہور میں او آئی سی کی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شہنشاہ ایران کے سوا تقریبا تمام ہی اسلامی ممالک کے سربراہوں یااہم راہنماوں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت پاکستان کی تھنگ ٹینک اشرافیہ پر یہ بات کھل کر واضح ہوئی کہ تمام مسلم ممالک میں صرف پاکستان ہی واحد ملک ہے جو مسلم ممالک کی راہنمائی او ر قیادت کرنے کی فطری صلاحیت و اہلیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر بعض افریقی ممالک کے سربراہوں نے اس قسم کے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں صرف پانچ ممالک پاکستان، ترکی، ایران، مصر اور ملائشیا ایسے جن میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادیں اور پوٹینشیل موجو دہے۔
اکیسویں صدی میں سر اٹھا کر چلنے اور زندہ رہنے کے لیے مسلم ممالک کو دو اور کام کرنا ہوں گے ایک آزاد اور خو د مختیار خبر رساں (نیوز) ایجنسی کا قیام جو مسلم دنیا کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رکھ سکے اور دوسرے سائنسی سرگرمیوں اور معلومات کے تبادلے کے لیے انگریزی، عربی، فرانسیسی اور اردو زبانوں میں بین الاقوامی معیار کے پاپولر سائنس کے جریدوں کا اجراء کریں۔ اس وقت افسوناک صورتحال یہ ہے کہ مسلم دنیاسے کسی بھی زبانوں میں پاپولر سائنس یعنی عام فہم سائنس کا ایک بھی جریدہ شائع نہیں ہوتا۔ ہمارے صاحب مخیر حضرات جہاں اور بہت سے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں انہیں مسلم دنیا کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی آگے آنا چاہیے۔
بیا ورید گر ایں جا بود زباں والے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

اپنا تبصرہ بھیجیں