ٹیپو سلطان نے ہندوستان میں انگریزوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔۔؟

ایک مشہور تاریخ دان کرنل مارک ولکس کہتے ہیں کہ ٹیپو سلطان قد کے لحاظ سے اپنے والد حیدر علی سے قدرے چھوٹے تھے۔ ٹیپو سلطان کو رنگ کالا تھا آنکھیں بڑی بڑی تھیں یعنی کہ بالکل عام سے دکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان ہمیشہ ہلکے کپڑے پہنتے تھے اور جو ان کے ساتھ تھے ان کو یہی تلقین کیا کرتے تھے۔ ٹیپو سلطان ہمیشہ سفر میں گھوڑا استعمال کرنا پسند کرتھے انہیں ڈولی میں بیٹھنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ آج بھی لندن کے وکٹوریا اینڈ ایلبرٹ میوزیم میں اگر آپ جائیں تو وہاں پر پینٹنگ موجود ہے جس میں ٹیپو سلطان ہرے رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں جس میں موتی اور روبی کی لڑی پروئی ہوئی ہے۔اور انہوں نے ہرے رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے جس میں شیر جیسی دھاریوں والا کمر بند بھی ہے اور بازوں میں ایک بیلٹ ہے جس میں لال میان کے اندر تلوار لٹک رہی ہے۔
یہ 14فروری 1799ء کی بات ہے جب جنرل جارج ہیرس کی کمان میں اکیس ہزار فوجیوں نے ویلور سے میسور کی طرف سفر کیا۔ 20مارچ کو امبر کے مقام پر سولہ ہزار فوجیوں کا دستہ ان کے ساتھ آکر ملا۔ اس میں کنور کے ایک قریبی جنرل جن کا نام سٹوئرٹ تھا ان کی کمان میں 6500فوجیوں کا ایک دستہ بھی شامل ہوگیا۔ جب یہ سب اکھٹے ہوگئے تو انہوں نے مل کر ٹیپو سلطان کے قلعے سرنگا پٹم کو آہستہ آہستہ گھیر لیا اور 3مئی 1799ء کو توپوں سے حملے کرکے اس کے صدر دروازے میں سوراخ کردیا۔
ایک مشہور تاریخ دان جیمس مل اپنی ایک کتاب ’دا ہسٹری آف برٹش انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ ٹیپو سلطان وہی تھے جن کی لگ بھگ آدھی سلطنت پر انگریزوں نے چھ برس قبل قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد ٹیپو سلطان کے پاس جو زمین بچی تھی اس سے انہیں ایک کروڑ روپے سے کچھ کم سالانہ آمدن ہوتی تھی جبکہ اس دور میں بھارت میں انگریزوں کو ملنے والا ٹوٹل زرمبادلہ 90لاکھ پاونڈ یعنی 9کروڑ روپے تھا۔
حالانکہ سوراخ زیادہ بڑا نہیں ہوا تھا ابھی انگریزی فوج کے جنرل جارج ہیرس نے اپنے فوجیوں کو اس سورخ کے ذریعے قلعے کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس وقت ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا ان کی فوج بھی بھوکی تھی۔ بعد میں ہیرس نے کیپٹن میلکم کے سامنے خود اعتراف کیا کہ میرے خیمے پر تعینات انگریزی چوکیدار اتنا کمزور پڑ چکا تھا کہ اگر اس وقت اسے دھکا دیا جاتا تو وہ نیچے گر جاتا۔
3مئی کی رات تھی پانچ ہزار فوجی جن میں 3ہزار انگریز تھے خندقوں میں چھپ گئے تاکہ ٹیپو سلطان کی فوج کوانگریزی فوج کی کسی قسم کی سرگرمی کا علم نہ ہوسکے۔جیسے حملے کا وقت قریب آیا تو ٹیپو سلطان سے غداری کرنے شخص میر صادق نے تنخواہ دینے کے بہانے فوجیوں کو پیچھے بلایا یہ سارا پلان پہلے سے طے تھا کہ جب اس طرح ہوجائے گا تو انگریزی فوجیں قلعے پر ہلہ بول دیں گئیں۔ غدار کی جانب سے جیسے ہی اشارہ ملا انگریزی فوج نے دریا کے کنارے کی جانب پیش قدمی شروع کردی جو قلعے سے صرف280گز چوڑا تھا کہیں پانی تھا تو کہیں نہیں تھا۔ ٹیپو سلطان کے ایک کماندڑ جن کا نام ندیم تھا انہوں نے تنخواہ کا مسلہ کھڑ کردیا اسی لیے دیوار کے سوراخ کے پاس تعینات فوجی بھی اس کے پیچھے چل پڑے یہی وہ موقع تھا جب انگریزوں نے موقع پاکر پیچھے سے حملہ کردیا۔ اس حملے کے دوران ٹیپو سلطان کے ایک بہت ہی وفادار کمانڈر سعید غفار انگریزوں کی توپ کے گولے سے شہید ہوگئے۔ جب ٹیپو سلطان کو اطلاع ملی کہ حملہ ہوچکا ہے تو انہوں نے اپنی فوج کی ہمت باندھنے کے لیے خود جنگ میں شریک ہوگئے۔ 4مئی کی صبح تھی جب ٹیپو سلطان اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے کی دیوار میں انگریزی توپ سے ہونے والے سوراخ کا خود معائنہ کیا اور فوری طور پر اسے مرمت کرنے کا حکم دیا۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کو صبح ہی نجومیوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ آج کا دن آپ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ٹیپو کو اس کے نجومیوں نے یہ بتا رکھا تھا کہ جب ان پر کوئی مصیبت آئے تو وہ لوہے کے برتن میں تیل رکھ کر اس میں اپنا سایہ دیکھا کریں ایسا کرنے سے آنے والی مصیبت ٹل جائے گی۔ ٹیپو سلطان نے غریبوں میں کھانا تقسیم کیا براہمنوں کو کالی بکریاں کالے کپڑے اور پیسے دئیے۔ واپس لوٹ کر ٹیپو نے محل میں کھانا کھایا جب کھانا شروع کیا ہی تھا کہ اس وقت ٹیپو سلطان کو سعید غفار کی شہادت کی اطلاع ملی غفار قلعے کے مغری سرے کی حفاظت پر مامور فوجیوں کی قیادت کررہے تھے۔ ٹیپو کو جیسے ہی یہ خبر ملی انہوں نے کھانا چھوڑ دیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر اس جگہ نکل گئے جہاں دیوار میں سوراخ ہوا تھا لیکن ٹیپو سلطان کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں انگریزی فوج نے اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا اور دوسرے علاقوں کی طرف بڑھنا شروع ہوچکے تھے۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نہ زیادہ تر جنگ عام فوجیوں کی طرح پیدل ہی لڑی لیکن اس جنگ میں جب ٹیپو کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو انہوں نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر فوجیوں کی ہمت بڑھانے کی کوشش کی۔
مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ا س وقت اگر ٹیپو سلطان چاہتے تھے آسانی سے میدان جنگ سے بھاگ سکتے تھے لیکن وہ نہیں بھاگے یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگئے مگر لڑتے رہے اور اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے جب ٹیپو قلعے کے اندرونی گیٹ کی جانب بڑھنے لگے تو ایک فائر ان کے سینے آر پا ر ہوگیا اور اس وقت ٹیپو کا گھوڑا بھی مر چکا تھا۔ فوجیوں نے ٹیپو کو ڈولی پر بیٹھا کر جنگ کے میدان سے باہر لے جانے کی کوشش کی مگر ہر طرف سے گولے اور گولیوں کی بارش تھی تو نہ لے جاسکے۔ تب تک انگریزی فوج قلعے کے اندرونی گیٹ سے اندر داخل ہوگئی تب تک ٹیپو سلطان لڑ لڑ کر نڈھال ہوچکے تھے اور گر کر بہوش ہوگئے جب کچھ انگریزی فوجی ٹیپو کے قریب آئے اور ٹیپو کی تلوار چھیننا چاہی تو ٹیپو نے تلوار نہ دی اور اٹھ کر لڑنا شروع ہوگئے اوچھ ساتھ انگریزی فوجی ہلاک کردئیے انگریز اس بات نہ واقف تھے کہ ٹیپو سلطان شہید ہوچکے ہیں یا ابھی زندہ ہیں وہ ٹیپو کی لاش دیکھنے کے لیے قلعے کے اندر گئے تو پتہ چلا کہ ٹیپو سلطان یہاں نہیں ہے اب جو فوجی اندر موجود تھے انہوں نے قلعے کے باہر انگریزی فوج کو بتا یا تھا کہ ہم نے ٹیپو سلطان کو شہید کردیا ہے حالانکہ اس وقت ٹیپو سلطان کا ایک محافظ انہیں اس مقام پر لے جا چکا تھا جہاں ٹیپو سلطان گرے تھے لیکن وہاں پر بھی انگریزی فوج نے حملہ کردیا اور ٹیپو سلطان اس وقت شہید ہوچکا تھا۔ اب انگریزی فوج کے کمانڈر شہید ٹیپو سلطان کی لاش دیکھ کر بھی خوف ذدہ ہورہے تھے کہ کہیں زندہ نہ ہو اور اٹھ کر دوبارہ حملہ نہ کردے اور کافی دیر لاش سے دور کھڑ ے ہوکر اس بات کی تصدیق کرتے رہے کہ ٹیپو ابھی زندہ ہے یا شہید ہوچکا۔ ایک کمانڈر نے ہمت باندھ کر ٹیپو سلطان کی لاش کے قریب آیا اس وقت ٹیپو سلطان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی جسم سخت گرم تھا ڈرتے ڈرتے کمانڈر نے ٹیپو کی نبض پر جب ہاتھ رکھا تو اسے سکون ہوا اور اس نے سکھ کا سانس لیا کہ ٹیپو سلطان شہید ہوچکا ہے۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزی فوجیوں نے سرنگا پٹم قلعے کو بری طرح لوٹا صرف چند چیزیں ہیں جن کو نقصان نہیں پہنچایا ٹیپو کا ہاتھی،ٹیپو کا تخت، لائبریری جس میں تاریخ، سائنس اور احادیث مبارکہ کے بارے میں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں میں لکھی ہوئی دو ہزار کتابیں یہ سارا کچھ انگریزی کمانڈروں نے بحفاظت اٹھایا اور برطانیہ لے گئے۔
اگلے روز محل سے ٹیپو سلطان کا جنازہ نکلا۔ جنازے کے ٹیپو سلطان کے ذاتی ملازمین نے خود اٹھایا جنازہ جہاں جہاں سے گزر رہا تھا لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہجوم جمع ہوتا گیا اور لوگ زارو قطار رو رہے تھے ٹیپو سلطان کو لال باغ میں ان کے والد حید علی کی قبر کے بغل میں دفن کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کا سامنا ٹیپو سلطان جیسے ایک نڈر اور بہادر بادشاہ سے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں کو جنگ میں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔

شیر کی ایک دن کی زندگی
گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر سے

اپنا تبصرہ بھیجیں